حضرت یوسف کی مثال
قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف، 12:3)۔ احسن القصص کا مطلب ہےبہترین طریقِ کا ر (best method) ۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں حضرت یوسف کے ذریعہ ایک عملی مثال قائم کی، اور اس طرح ہر زمانے کے اہل ایمان کو یہ ہدایت دی کہ تم اپنے حالات کے اعتبار سے اس کامیاب طریقِ کار کو اختیار کرو۔پیغمبر اسلام کو قرآن میں جو حکمت کی باتیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک حکمت وہ ہے جو پیغمبر یوسف کے حوالے سے قرآن میں آئی ہے۔اس طریقِ کار کا خلاصہ تھا— اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرنا، اور موجود مواقع کو پر امن انداز میں استعمال کرنا۔
پیغمبر یوسف کنعان میں پیدا ہوئے، جو اب الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ بقول اغلب 1910 تا 1800 ق م کا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ خاندانی اسباب پیدا ہوئے، اور وہ فلسطین سے نکل کر مصر پہنچ گئے۔اس زمانے کا مصر کا بادشاہ ان سے متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو اپنی سلطنت میں پورے ملک کی زراعت کا انچارج بنا دیا۔
پیغمبر یوسف ایک گاؤں سے نکل کر مصر پہنچے تھے۔ ان کو یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔ اس کا راز یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا ، جس کو پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ وہ پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ یہ تھا کہ پیغمبر یوسف اِس پر راضی ہوگئے کہ حکومت کے تخت پر مشرک بادشاہ بدستور قائم رہے، لیکن ملک کے خزائن (زرعی نظام) پیغمبر یوسف کے ہاتھ میں ہو۔
یہ قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے۔ بائبل (پیدائش، 41:40)میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہے— سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Only as regards the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
پیغمبر یوسف کے قصے کو قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین طریق کار(best method) قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہترین طریق کار کیا تھا، جس نے پیغمبر یوسف کو قدیم مصر میں اعلیٰ مواقع عطا کردیے۔ وہ طریق کار ایک لفظ میں یہ تھا— سیاسی اقتدار کے ساتھ پولیٹکل اپوزیشن کے بجائے پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہ طریقہ جو پیغمبر یوسف نے اختیار کیا، وہ قدیم زمانے میں بھی سب سے زیادہ کامیاب طریقہ تھا، اور موجودہ زمانے میں بھی وہ سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کی بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔