شیطان کا چیلنج
انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں انسانوں کی بڑی تعداد کو شیطان نے یہ سکھایا کہ مخلوق میں بھی خدائی (divinity) ہوتی ہے۔ چنانچہ بیشتر انسان مخلوق کے پرستار بن گئے۔ سائنس دانوں اس روایتی کنڈیشننگ کا توڑا،انھوں نے پچھلے تقریباً چار سو سال کی تحقیق کے بعد بتایا کہ مخلوقات میں خدائی (divinity) نہیں۔ سائنس دانوں کی ریسرچ سے یہ ثابت ہوگیا کہ خالق الگ ہے، اور مخلوق الگ۔ مغرب کے سائنس داں حدیث کے الفاظ میں مؤیدین ِ دین تھے (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے ذریعے دریافت شدہ علم نے دین کی تائیدکا کام انجام دیا ہے۔ لیکن شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا کہ اہل مغرب تمھارے دشمن ہیں۔اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیلنج تھا، جو شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو ان الفاظ میں دیاتھا: وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17)۔ یعنی تو بیشتر انسانوں کو اعتراف کرنے والا نہ پائے گا۔
چنانچہ مغرب سے دشمنی کی بنا پرمسلمان اس اہم چیز سے دور ہوگئے، جس کو سائنٹفک ڈیٹا کہا جاتا ہے۔ یعنی ہمارے علما نے اہل مغرب سے دشمنی کی بنا پر ان کی زبان اور ان کے ذریعے دریافت شدہ سائنس کو نہیں پڑھا، اس بنا پر وہ جدید سائنسی دریافت سے بے خبر ہوگئے۔اس طرح مسلمان ان تمام کائناتی نشانیوں سےدور ہوگئے، جو اللہ رب العالمین کے وجود کا علمی ثبوت فراہم کرنے والے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے نہ بن سکے۔وہ لوگ اگرچہ اللہ کے منکر تو نہیں بنے، لیکن اللہ ان کی زندگی کا ایک رسمی ضمیمہ بن کر رہ گیا۔