پالیٹکل ماڈل
قرآن و حدیث، نیز اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں پالٹکس کا کوئی ایک متعین معیاری ماڈل نہیں۔ اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی واحد عملی ماڈل نہیں ملتا ، جس کو ہر دور کے لیے ایک اسٹینڈرڈ ماڈل سمجھا جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پالٹکس کے معاملے میں اسلام کا اصول تمکین (stability) پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک معیاری ڈھانچےپر۔ مثلاً اسلام میں کوئی ایسی نص موجود نہیں ، جس سے معلوم ہو کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل خلافت پر مبنی ہے، یا حکومت الٰہیہ پرمبنی ہے، یا اجتماعی عدل پر مبنی ہے، یا شورائیت پر مبنی ہے، یا اور کسی ماڈل پر مبنی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل ، پریکٹکل وزڈم پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک آئیڈیل پر۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سیاست کے معاملے میں اصل چیز تمکین (الحج،22:41)ہے ، یعنی سیاسی استحکام (political stability) ۔ کیوں کہ اگر پولیٹکل استحکام آجائے تو اسلام کا اصل مطلوب حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر امن قائم ہوجائے تو اہل ایمان کے لیے یہ آسانی پیدا ہوجاتی ہے وہ مواقع (opportunities) کو بھر پور طور پر استعمال کرسکیں۔ وہ تعلیم اور دعوت جیسے مثبت مقاصد کی منصوبہ بندی کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دے سکیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام کی وفات کےتقریباً تیس سال بعد مسلم دنیا میںعملاً شخصی حکومت قائم ہوگئی، جس کو ڈائناسٹی (dynasty)کہا جاتا ہے۔اس حکومت کو اگرچہ بعض لوگوں نے یہ نام دیا کہ وہ خلافت کو منسوخ کرکے ملوکیت کو قائم کرنا تھا۔ مگر جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، علمائےامت نے اجماعی طور پر اس کو قبول کرلیا، اور وہ تقریباً ہزار سال تک پوری مسلم دنیا میں جاری رہا۔ اس نظام کے خلاف بغاوت (revolt)کا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ اس طرز حکومت نے مسلم دنیا میں پولیٹکل استحکام قائم کردیا، جس کے تحت اسلام کے تمام مطلوب کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تشکیل، مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام، عربی زبان کی فنی تشکیل، سیرت اور تاریخ جیسے موضوعات پر کتب خانے کی ترتیب و تشکیل، اور اس طرح کے دوسرے عملی تقاضوں کی تکمیل، وغیرہ، وغیرہ۔یہ تمام کام صرف سیاسی استحکام کے حالات میں انجام پاسکتے تھے۔ چوں کہ اس نظام کے تحت یہ مقصد حاصل ہوا، اس لیے عملاً پوری امت نے اس کو قبول کرلیا۔