خلاصۂ کلام
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ قرآن عالمی سطح پر انسانوں کے درمیان پہنچے۔ اس کام کی کچھ شرطیں تھیں، وہ شرطیں اللہ تعالی کی توفیق سے پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف یہ کام ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں، اور قرآن کو عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچادیں۔
اللہ کی توفیق سے پہلا کام یہ ہوا کہ قرآن کے متن کو امت نے پوری طرح محفوظ کردیا۔ قرآن کے متن کو اس طرح محفوظ کردیا گیا کہ اب اس کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ تمام اسباب مکمل طور پر فراہم کردیے گئے، جو ان سب کے لیے ضروری تھے۔
مثلاً (1)پرنٹنگ پریس کا وجود میں آنا۔ (2) عالمی کمیونی کیشن، اس کے تحت قرآن تمام لوگوں کے لیے قابلِ حصول ہوگیا۔ (3)انٹرنیشنل زبان ، یعنی انگریزی زبان کا وجود میں آنا۔ (4)مذہبی تعصب کا خاتمہ۔ (5) علمی انفجار(knowledge explosion)۔ (6) عالمی سطح پر نقل و حمل کی آسانی۔ (7) اسپرٹ آف انکوائری۔ (8) مذہبی افہام و تفہیم (religious understanding) کا کھلا ماحول۔ (9) حاملین قرآن کے پاس وسائل کی مکمل موجودگی، مثلاً تیل اور گیس کے ذخائر کا ہونا۔(10) امن کو خیر اعلیٰ کی حیثیت دینا۔ (11) بین مذاہب تعلقات پر زور۔(12) اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مذہبی اشاعت کی کامل آزادی کا معاہدہ۔ (13) سائنسی تحقیقات کے ذریعے آفاق و انفس کی نشانیوں کا ظاہر ہونا۔ (14) ماڈرن انسان کسی بات کو اس وقت قبول کرتا ہے، جب کہ بات ریزن کو اپیل کرتی ہو، وغیرہ۔
یہ تمام ظاہرے دعوت الی اللہ کے حق میں ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ قرآن کی اشاعت کا کام بھر پور طور پر انجام دے دیا جائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل اسی مقصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا ہے ،یعنی تمام انسانوں کو خدا کے پیغام سے باخبر کرنا۔ اس کے ذریعے یہی کام انجام دیا جارہا ہے۔دعا ہے کہ یہ کام اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے۔