قرآن کا طریقِ مطالعہ
قرآن معروف معنوں میں ایک مذہبی رسم کی کتاب نہیں ہے، وہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں پوری انسانی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات دی گئی ہیں۔قرآن کی رہنمائی عام انسانی کتابوں سے مختلف ہے۔ عام انسانی کتابوں کے لیے ریڈنگ (reading) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے لیے یہ کرنا ہے کہ اس کا قاری اس کو تدبر (ص،38:29) کے ساتھ مطالعہ کرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اپنی اسلوب کے اعتبار سے ربانی حکمت کا مجموعہ (collection of divine wisdom) ہے۔ قرآن میں بیان کردہ انسانی تاریخ کو سمجھنے کے لیے اسی اصول کو اختیار کرنا چاہیے۔
قرآن کے مطابق ،تاریخ بہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ لیکن تاریخ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی طرح ایک خدائی واقعہ ہے، جس طرح تخلیق (creation) ایک خدائی واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق مکمل طور پر خدا کا عمل ہے، لیکن تاریخ چوں کہ انسان کے لیے امتحان گاہ ہے، اس لیے تاریخ کے معاملے میں خدا کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج کرنا:
Managing the course of human history while maintaining human freedom.
قرآن کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا عنوان غالباً یہی ہوگا۔اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ (22:38) ۔یعنی بیشک اللہ ان لوگوں کی مدافعت کرتا ہے جو ایمان لائے۔ بیشک اللہ بد عہدوں اور نا شکروں کو پسند نہیں کرتا۔ ان ادوار کے بارے میں قرآن میں اشارات موجود ہیں(دیکھیے: سورہ الاعراف، 7:54؛ سورہ یونس، 10:3، وغیرہ)۔ زیادہ تفصیلی بیان اس معاملے میں انسان کی تخلیق کا ہے۔ انسان کی تخلیق کے وقت جو واقعات پیش آئے، ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے، جو اللہ رب العالمین اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ کی صورت میں ہوا۔