رسول اللہ کا طریقِ کار

پرامن منصوبہ بندی کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ آپ کا مشن اللہ کی توحید کا مشن تھا۔ مکہ کی عملی صورت حال یہ تھی کہ پیغمبر ابراہیم کے بنائے ہوئے مقدس کعبہ کو بعد کے لوگوں نے بت پرستی کا مرکز بنادیا تھا۔ خود کعبہ کی عمارت میں تقریبا 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام اپنے ابتدائی دور میں تیرہ سال مکہ میں رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان تیرہ سالوں میں آپ نے کبھی عملی طور پراس پر احتجاج نہیں کیا کہ تم لوگوں نے پیغمبر ابراہیم کے کعبہ کو بتوں کا مرکز کیوں بنا دیا، اس کو یہاں سے ہٹاؤ، اور دوبارہ اس کو کعبہ کے بانی کی بنیاد پر قائم کرو۔

پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک غیر معمولی عمل تھا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا توحید کا مشن جاری کرنا۔ مگر حدیث کے پورے ذخیرہ میں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ گویا کہ یہ واقعہ ابھی تک بلاتوجیہہ (unexplained) پڑا ہوا ہے۔ یقیناً اس واقعہ کا کوئی معقول سبب موجود ہوگا۔ جب وہ کتابوں میں لکھا ہوا موجود نہیں ہے،تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اس دریافت کے ذریعہ جو سبب معلوم ہو، اس کو مبنی بر استنباط سنت کا درجہ دیا جائے گا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)کی سنت تھی ۔ یعنی پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی بلاشبہ ایک غیر مطلوب فعل ہے۔ لیکن ان بتوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ عرب میں پھیلے ہوئے تمام قبائل کے بت تھے۔ ان بتوں کی وجہ سے عرب کے تمام قبائل کے لوگ روزانہ مکہ آتے، اور اپنے بتوں کی زیارت کرتے۔ اس بنا پر کعبہ سارے عرب کے لوگوں کا اجتماع گاہ بن گیا تھا۔ یہ اجتماع عملاً پیغمبر اسلام کے لیے آڈینس (audience) کی حیثیت رکھتا تھا۔ گویا کہ ان بتوں کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ مشرکانہ کلچر کی علامت تھے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل رہا تھا کہ آپ سارے عرب کا سفر کیے بغیر خود مکہ میں عرب کے تمام قبائل کو اپنا موحدانہ پیغام پہنچا سکیں۔ چنانچہ آپ نےاس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے آپ نے زائرین کو لیا، اور ان کو خدا کا پیغام براہ راست طور پر پہنچانا شروع کردیا۔

اس اصول کو پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو طریقوں میں سے ایک طریقہ کو ا ختیار کرنا ہوتاآپ ہمیشہ ان میں سے آسان طریقہ کا انتخاب کرتے تھے۔اس اصول کی بنیاد پر اگر فارمولا بنایا جائے تو وہ یہ ہوگا— مسئلے کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو استعمال کرو:

Ignore the problem, avail the opportunity

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom