تبیینِ حق کا دور
حدیث میں ایک دعوتی پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ معاملہ وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔اس پیشین گوئی کو لازماً پورا ہوناتھا۔ اس پیشین گوئی کی تکمیل اہل ایمان کے ذریعے ہوگی۔ اب آخر وقت آگیا ہے کہ اہل ایمان ان مواقع کو جانیں، اور اس کے لیے ضروری پلاننگ کریں۔ اگر اہل ایمان کا ایک گروہ اس کام کے لیے اٹھے، تو اللہ رب العالمین کی تائید ان پر ٹوٹ پڑے گی، اور فرشتے ہر طرف ان کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں گے، اور عالمی دعوت کا یہ کام اس طرح انجام پائے گا، جیسے کہ اس سے زیادہ آسان کوئی کام نہیں تھا۔اکیسویں صدی میں امت محمدی کو اپنا فائنل رول ادا کرنا ہے۔ یہ فائنل رول ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فائنل رول وہی ہے، جس کو قرآن میں اعلیٰ سطح پر تبیین حق (فصلت، 41:53) کہا گیا ہے، اور حدیث میں غالباًاسی دعوتی عمل کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا درجہ دیا گیا ہے۔