قانونِ دفع
اللہ رب العالمین کا ایک قانون وہ ہے، جس کو قرآن میں قانونِ دفع کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کی دو آیتوںمیں اس قانون کا ذکر ہوا ہے:وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ (2:251)۔یعنی اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین فساد سے بھر جائے (نیز دیکھیےسورہ الحج آیت 40 )۔ دفع کا مطلب ہےدور کرنا یا ہٹانا (to repel)۔ یعنی اللہ صاحب اقتدار گروہ کو ، جب اس میں جمود آجائے تو بدل کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لاتا ہے۔
قانونِ دفع کا تعلق جزئی طور پر جہاد سے ہے۔ لیکن وہ توسیعی اعتبار سے اللہ رب العالمین کی عمومی سنت ہے۔ اس کے تحت اللہ انسانی تاریخ میں مداخلت (interference) کرتا ہے، اور انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئےتاریخ کو غلط رخ پر چلنے سے بچاتا ہے۔ اس طرح انسانی تاریخ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔جہاد تو مسلم حکومت کا اپنے دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن دفع کی سنت ایک ایسی سنت ہے، جو عمومی اعتبار سے یہ کام انجام دیتی ہے کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں تاریخ کی کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔