صلیبی جنگیں

مسلم فتوحات کے بعد تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس عمل کے نتیجے میں مسلم اقوام کو غیر معمولی عروج حاصل ہوا۔ اسی عروج کا ایک حصہ یہ تھا کہ مسیحی عقیدہ کے مطابق ایشیا میں ان کے مقدس مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ یہ صورت حال مسیحی قوموں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے متحد ہو کر اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لینے کے لیے حملہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسیحی قوموں کے درمیان دو سوسال کی وہ لڑائی چھڑ گئی، جس کو صلیبی جنگ (Crusades) کہا جاتا ہے۔ مگر تقریباً دو سو سال کی خونی جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست پیش آئی۔ مورخ گبن کے الفاظ میں مسیحی قوموں کو اس جنگ میں ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کا سامنا کرنا پڑا۔

مسیحی قوموں کے لیے یہ شکست اتنی فیصلہ کن تھی کہ عملاً ان کے لیے یہ آپشن باقی نہ رہا کہ وہ اس صلیبی جنگ کو مزید جاری رکھ سکیں۔اس شکست نے یورپ کی مسیحی قوموں میں یہ سوچ بیدار کی کہ ان کے لیے مسلمانوں کے مقابلے میں جنگ کا آپشن باقی نہیں رہا۔ حالات کے دباؤ (compulsion) کے تحت انھوں نے اپنے لیے نیا آپشن (new option) تلاش کیا۔ یہ آپشن تھا — جنگی میدان کے بجائے علم کے میدان میں اپنی کوشش لگا دینا۔ان کے اندر فطرت (nature) کی تحقیق کا ذہن پیدا ہوا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کا ذہن جو جنگ کی اصطلاح میں سوچتا تھا، وہ اب فطرت کی دریافت کی اصطلاح میں سوچنے لگا۔ یہ عمل تقریباً پانچ سو سال تک جاری رہا۔ اس عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ واقعہ ہے، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مسیحی قوموں کے لیے یہ ایک ڈائیورزن (diversion) تھا، جو بہ ظاہر خدائی مداخلت (divine intervention) کے ذریعہ پیش آیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom