حفاظت کا راز

قرآن کی سورہ المائدہ(5:67) میں فرمایا ہے کہ عصمت الناس (لوگوں سے حفاظت) کا راز تبلیغ ما انزل اللہ (اللہ کی نازل کردہ باتوں کی تبلیغ)میں ہے۔ یہ عصمت (حفاظت) براہ راست طور پر پیغمبر سے متعلق ہے، لیکن بالواسطہ طور پر امت محمدی بھی اس خدائی ضمانت میں شامل ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر کی حیثیت خاتم النبیین کی ہے۔ امت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پیغمبر کی نیابت میں قیامت تک آنے والے لوگوں کو اللہ رب العالمین کا پیغام پہنچاتی رہے۔ اس لیے اللہ کی منصوبہ بندی کایہ تقاضا ہوا کہ امت محمدی کو بھی حفاظت کی اس ضمانت میں شامل رکھا جائے، تاکہ دعوت الی اللہ کا کام رکے بغیر قیامت تک جاری رہے۔

یہ حفاظت دنیا کے اعتبار سے ہے، آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔اس حقیقت کو حدیث رسول میں امت مرحومہ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مرحومہ کا مطلب ہے محفوظہ ، یعنی حفاظت کی ہوئی امت۔ اس بات کا ذکر مختلف روایتوں میں کیا گیا ہے،ان میں سے تین روایتوں کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

  1. عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ مِنْ أُمَّةٍ مَرْحُومَةٍ، فَلَا تَنْزَقُوا، وَلَا تَطْغَوْا(مساوی الاخلاق للخرائطی، حدیث نمبر 571)۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:بیشک تم لوگ امت مرحومہ میں سےہو۔ پس بے صبری نہ کرنا، اور نہ سرکشی کرنا۔
  2. عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:إِنَّ ہَذِہِ الْأُمَّةَ أَمَةٌ مَرْحُومَةٌ، لَا عَذَابَ عَلَیْہَا إِلَّا مَا عَذَّبَتْ ہِیَ أَنْفُسَہَا، قَالَ:قُلْتُ وَکَیْفَ تُعَذِّبُ أَنْفُسَہَا؟ قَالَ:أَمَا کَانَ یَوْمُ النَّہَرِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ الْجَمَلِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ صِفِّینَ عَذَابٌ؟( مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر 6204)۔یعنی ابوہریرہ نے کہا: بیشک یہ امت، امتِ مرحومہ ہے۔ اس پر کوئی عذاب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ خود ہی اپنے کو عذاب دے۔ راوی نے پوچھا، اپنے آپ کو کیسے عذاب دیا جاتا ہے۔ ابوہریرہ نے کہا: کیا یوم النہر عذاب نہیں تھا، کیا یوم الجمل عذاب نہیں تھا، کیا یوم صفین عذاب نہیں تھا۔

امت کے بارے میں نصرتِ الٰہی کی ایک اورروایت میں اس طرح آئی ہے:(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے روئے زمین کو سمیٹا،چنانچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور یقینا میری امت کادائرہ روئے زمین میں وہاں تک پہنچے گا، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھایا گیا ہے، اورمجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے ہیں،اس وقت میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ اللہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے ،اور یہ کہ میری امت پر اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو مسلط نہ کرے۔

میرے رب نے فرمایا :اے محمد، جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے لیے میں نے تم کو یہ عطا کیا کہ تمھاری امت کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا ،جو ان کی اجتماعیت پر قبضہ کرلے، اگرچہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہو جائیں، الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند میں ڈالیں (حَتَّى یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا، وَیَسْبِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2889۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom