علم الاسماء
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے واقعے میں اسماء (نام) کو بتانے سے مرادغالباً انسان کی تاریخ کا خلاصہ بتانا ہے۔ یعنی وہ تاریخ جو آدم کی اولاد کے زمین پر سرگرم عمل ہونے کے بعد وجود میں آئی۔ انسان سے پہلے اللہ نے جنات کو پیدا کیا(الحجر، 15:27)۔اس بنا پر فرشتوں کو یہ شک تھا کہ انسان بھی وہی کرے گا، جو اس سے پہلے جنات کرچکے ہیں۔ لیکن انسان کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ انسان کے معاملے میں اللہ کا منصوبہ یہ تھا کہ جنت کی صورت میں ایک اعلیٰ مسکن بنائے، اور وہاں انسان جیسی مخلوق کے منتخب افراد کو بسائے۔ انسان کو کامل آزادی دی جائے،جس کو قرآن میں امانت کہا گیا ہے(الاحزاب، 33:72)۔ اس منصوبہ کا مقصد یہ تھا کہ ایک صاحب عقل مخلوق کو پیدا کی جائے، اور اس کو زمین پر آباد کرکے آزادانہ طور پر عمل کا پورا موقع دیا جائے۔ پھر ان میں سے ایسے افراد منتخب کیے جائیں، جن کے بارے میں تجربے سے یہ ثابت ہو کہ وہ کامل آزادی کے باوجود کامل اطاعت کی صفت رکھنے والے ہوں۔ یعنی کامل آزادی (total freedom) کے باوجود خود اختیار کردہ ڈسپلن (self-imposed discipline) کا حامل ہونا۔
یہاں اس بات کا شدید امکان تھا کہ کامل آزادی کی صورت میں ایسا ہوگا کہ انسانوں کی ایک تعداد اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرے گی۔ لیکن ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ ابدی جنت کے مستحق افراد کو وجود میں لانا، اور ایسےافراد اسی وقت پیدا ہوسکتے تھے جب کہ ان کو حقیقی معنوں میں کامل آزادی دے کر یہ رسک (risk) لیا جائے کہ ان میں سے ایک گروہ بھٹکنے والا ہوگا تو دوسرا گروہ ایسانکلے گا، جو اپنے اختیار کو صحیح طور پر استعمال کرے، اوراپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کرے۔
فرشتے اپنے ذہن کے مطابق اس کو ناممکن سمجھتے تھے کہ نئی مخلوق (انسان) فرشتوں کی مانند کامل معنوں میں اطاعت گزار ہو۔ چنانچہ انھوں نے کہاکہ انسان زمین میں فساد کریں گےاور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے (البقرۃ، 2:30)۔لیکن اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ نئی مخلوق تخلیقی اوصاف (creative quality) کی مالک ہو۔ یعنی وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑی ہو، وہ خود اختیار کردہ نظم (self-acquired discipline) کی صفت رکھتی ہو، وہ خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑی ہونے والی ہو،اس کے اندر یہ صفت ہو کہ وہ اپنی اصلاح آپ (self-correction) کا پراسس (process) اپنے اندر جاری کرسکے، وہ پورے معنوں میں خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) کہلانے کی مستحق ہو ۔ ایسی ہی مخلوق اللہ کے نزدیک اس قابل تھی کہ وہ ابدی جنت کے باغوں میں ہمیشہ کے لیے آباد کی جائے۔
یہاں "علم الاسماء"سے مرادبہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ اللہ کا فرشتوں سے یہ کہنا کہ تم ان کے نام بتاؤ، یعنی ان کی تاریخ بتاؤ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تم یہ دیکھ رہے ہو کہ پیدا کیے جانے والے انسان آزادی کا غلط استعمال کریں گے، اور دوبارہ زمین میں فساد پھلائیں گے۔ مگر اللہ کے سوال میں یہ بات مضمر تھی کہ تم انسانی تاریخ کے جزء کو دیکھ رہے ہو، تم تاریخ کے کُل کو دیکھ کر رائے نہیں بنا رہے ہو۔ آدم نے اپنے الہامی علم کے مطابق، فرشتوں کو انسان کی تاریخ بتائی۔ اس کے بعد فرشتے اعتراف کے طور پر سجدے میں گر پڑے، اور وہ انسان جیسی مخلوق کی پیدائش کو اللہ رب العالمین کا اعلیٰ تخلیقی منصوبہ سمجھ کر اس پر راضی ہوگئے۔