تخلیق کے ادوار
اللہ رب العالمین نے پہلے مادی کائنات (universe) کو بنایا۔ معلوم طور پر یہ آغاز اس عالمی دھماکے سے ہوا جو سائنسی اندازے کے مطابق، تقریباً 13.8 بلین سال پہلے پیش آیا۔ اس کے بعد موجودہ کائنات تدریجی ارتقا (gradual development) کے اصول پر بنی۔ یہ واقعہ غالباً چھ ادوار (periods) کی صورت میں پیش آیا۔ یہ بات قرآن میں سات مرتبہ ستۃ ایام (چھ دن ) کے الفاظ میں آئی ہے۔قرآن میں جس چیز کو ایام کہا گیا ہے، اس سے مراد ادوار (periods) ہیں۔
قرآن کے چھ دن (ستۃ ایام) کو اگر سائنسی معلومات کی روشنی میں متعین کرنے کی کوشش کی جائے، تو غالباً وہ یہ ہوگا:
(1)بگ بینگ (Big Bang): سائنس کے مطابق، تقریباً 13.8 بلین سال پہلے ایک کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا، پھر اس میں ایک عظیم دھماکہ ہوا۔ پھر ا س کے بعد پراسس جاری ہوا، جس سے کائنات ظہور میں آئی ۔
(2) سولر بینگ (solar bang): مذکورہ دھماکے کے بعد خلا میں جو پراسس جاری ہوا، اس کے نتیجے میں سورج اور شمسی نظام وجود میں آئے۔ اسی دوران ہماری زمین (planet earth) وجود میں آئی۔
(3) واٹر بینگ (water bang): زمین کے وجود میں آنے کے بعد ایک لمبا پراسس جاری ہوا، اس کے بعد زمین پر دو گیسوںکی ترکیب سے پانی بنا، اور وہ سمندروں میں بھر گیا۔
(4) پلانٹ بینگ (plant bang): اس پراسس کے اگلے مرحلے میں زمین کے اوپر نباتات کا وجود عمل میں آیا۔ مختلف قسم کے نباتات سے پوری زمین ڈھک گئی۔
(5) انیمل بینگ (animal bang) : اس کے بعد اگلا مرحلہ سامنے آیا، اور زمین پر بے شمار قسم کے حیوانات (زندہ اشیا) وجود میں آگئے۔
(6)ہیومن بینگ (human bang): آخری دور میں انسان وجود میں آیا، اور دھیرے دھیرے پورے زمین پر پھیل گیا۔ زندگی کی یہ مختلف صورتیں، الگ الگ وجود میں آئیں۔ ان چیزوں کے وجود میں آنے کے معاملے میں مفروضہ نظریۂ ارتقا کا کوئی دخل نہیں ہے۔
ان چھ ادوار کا ذکر قرآن میں اپنے مخصوص انداز میں آیا ہے۔ قرآن کا گہرا مطالعہ کرکے ان کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پہلے دور کی بات ہے، وہ قرآن میں صراحت کی زبان میں آیا ہے۔ یہ بات قرآن کی دو آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔دوسری آیت یہ ہے:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔ یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو پھاڑنے والا ہے۔اس آیت میں فاطر کے معنی ہیں، پھاڑنے والا۔
پہلی آیت میں جس واقعے کو رَتق اور فَتق کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اسی کو دوسری آیت میں فاطر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں میں لفظی فرق کے ساتھ ایک ہی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کائنات ابتدا میں ایک کاسمک بال کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس کاسمک بال میں کائنات کے تمام پارٹکل موجود تھے۔ پھر ایک عظیم دھماکے کے ذریعے یہ تمام پارٹکل فضا میں پھیل گئے۔ پھر ایک لمبے پراسس کے ذریعے یہ تمام پارٹکل کائنات کے مختلف اجزا کی صورت میں جمع ہوئے۔ یہ سارا معاملہ انتہائی منظم انداز میں ہوا۔ اس عمل کی کوئی توجیہہ اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ ایک قادرِ مطلق خدا نے ان تمام واقعات کو انجام دیا۔