رسول اور اصحاب رسول
اس منصوبے کے تحت وہ انوکھی ٹیم تیار ہوئی، جو مطلوب انقلاب کے لیے پوری طرح اہل تھی۔ اس پراسس کی تکمیل پر 570 عیسوی میں خالق نے اس نسل میں پیغمبر محمد بن عبداللہ کو قدیم مکہ میں پیدا کیا۔ انھوں نے ایک اعلیٰ پلاننگ کے تحت اس علاقہ میں توحید کا مشن چلایا۔ اس مشن کے ذریعہ وہ خصوصی نسل پیدا ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ پھر اس نسل کے اندر ایک حکیمانہ عمل کے ذریعہ صحابہ کی جماعت پیدا ہوئی۔ آپ نے ایک منظم جدو جہد کے ذریعہ وہ مطلوب ٹیم تیار کی۔ اسی مطلوب ٹیم کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے (ابراہیم،14:37)۔ یہ مطلوب ٹیم بلاشبہ ایک تیار ٹیم تھی۔ اس کا مشن یہ تھا کہ قدیم زمانے سے جاری بادشاہت کے نظام کو توڑدے، اور اس طرح انسانی تاریخ میں تیسرے دور (third phase) کا دروازہ کھلے۔ اس جماعت کو ایک حکیمانہ منصوبہ کے ذریعہ مشن کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ انقلابی واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں دور شرک کا خاتمہ ہوا، اور تاریخ میں دورِ توحید کا آغاز ہوا۔
اس موقع پر اللہ ر ب العالمین نے مداخلت کی۔اس وقت وہ حالات پیدا ہوئے جب کہ اصحاب رسول کی ٹیم کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے وقت کےنظامِ بادشاہت کو توڑ کر نئے تاریخی دور کا آغاز کریں۔ اس واقعہ کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے:الم ۔ غُلِبَتِ الرُّومُ ۔ فِی أَدْنَى الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ ۔ فِی بِضْعِ سِنِینَ لِلَّہِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ۔ بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَاءُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (30:1-5)۔ یعنی رومی پاس کے علاقہ میں مغلوب ہوگئے۔ اور وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب غالب ہوں گے۔ چند برسوں میں۔ اللہ ہی کے ہاتھ میں سب کام ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اور وہ زبردست ہے، رحمت والا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت، اور دوسرا، مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد 603 ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت ایسے اسباب پیش آئے کہ دونوں عظیم سلطنتوںمیں سخت ٹکراؤ ہوا، جس سےیہ دونوں سلطنتیں بے حد کمزور ہوگئیں۔ یعنی بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ 616 ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں نبوت ملی ۔اس کے بعد آپ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے نیک فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمہارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دی ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمہارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں، حالات کے سراسر خلاف، یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مورخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پر اسرار طور پر تبدیلی پیدا ہوناشروع ہوئی۔ یہاں تک کہ 623 ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔ 624 ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ 627 ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے لیے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی ۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس دوطرفہ جنگ میں دونوں سلطنتیں انتہائی حد تک کمزور ہوگئیں۔ پہلے ساسانیوں نے رومیوں پر فتح حاصل کرکے ان کو کمزور کیا، اس کے بعد رومیوں نے ساسانیوں پر فتح حاصل کرکے انھیں بے حد کمزور کردیا۔ اس طرح باری باری ایک نے دوسرے کو کمزور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور تابعین کو یہ موقع ملا کہ وہ اس قدیم جبری بادشاہت کے نظام کو بہ آسانی توڑ دے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر اور خلیفہ ثانی عمر کے زمانے میں جب مسلم فوجیں ساسانیوں اور رومیوں کے علاقے میں داخل ہوئیں تو انھوں نے نہایت آسانی کے ساتھ دونوں سلطنتوں کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
یہ خاتمہ صرف دو سیاسی طاقتوں کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اسی کے ساتھ شرک کا خاتمہ بھی تھا۔ کیوں کہ یہ سلطنتیں اس زمانےمیں مذہبی جبر کی سرپرست بنی ہوئی تھیں۔ اس طرح ساتویں صدی اور آٹھویں صدی میں پوری دنیا کا سیاسی اور تہذیبی نقشہ بدل گیا،اور پھر ایک تاریخی عمل کے ذریعہ وہ انقلابی واقعہ پیش آیا، جس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:
(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)
اس کے بعد یہ ہوا کہ جن علاقوں میں مشرک بادشاہ حکومت کرتے تھے، وہاں موحد حکمراں حکومت کرنے لگے۔اس وقت عملاً پوری دنیا میں مسلم ایمپائر کا غلبہ قائم ہوگیا— اموی ایمپائر، عباسی ایمپائر، اسپینی ایمپائر، مغل ایمپائر، عثمانی ایمپائر، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں قائم ہوگئیں۔ اس کےنتیجے میں ہر جگہ توحید کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ بڑی تعداد میں شرک کو چھوڑ کر دین توحید میں داخل ہونے لگے۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق، عام طور پر انفرادی تبدیلیٔ مذہب نہیں ہوتی تھی، بلکہ لوگ عام طور پر پبلک کنورزن (public conversion)کے اصول پر دین توحید میں داخل ہوتے تھے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، برٹش مورخ پروفیسر آرنلڈ (T W Arnold) کی کتاب، دی پریچنگ آف اسلام )۔