شاک ٹریٹمنٹ
سفک دماء یا فساد فی الارض کا واقعہ کون کرتا ہے۔ یہ انسان کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے اندر مزید ایک برعکس صفت موجود ہوتی ہے، اور وہ ہے ضمیر کی صفت۔ اس کو دوسرے الفاظ میں محاسبہ خویش کی صفت کہا جاسکتا ہے۔ انسان کے ساتھ لازماً ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے ایک انتہائی اقدام کربیٹھتا ہے، اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ فطرت کے قوانین کی بنا پر اس کا اقدام باعتبار نتیجہ معکوس (counter productive)اقدام ثابت ہوتا ہے تو اس کے اندر ندامت (repentance) کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اپنی فطرت کی بنا پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کرتا ہے۔ انسان کے اندر یہ عمل ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کو کوئی بڑا شاک (shock) لگے۔ اس قسم کے بڑے شاک کے لیے کوئی بڑا واقعہ چاہیے۔ سفک دماء یا فساد فی الارض انسان کی شخصیت میں اسی قسم کا شاک پیدا کرتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ وہ چیز جس کو قرآن میں سفکِ دماء یا فساد فی الارض کہا گیا ہے، وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کے ساتھ جب غیر مطلوب صورت حال پیش آتی ہے تو وہ انسان کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرتی ہے۔ وہ انسان کی سوئی ہوئی صلاحیت کو بیدار کردیتی ہے۔ وہ انسان کے اندر یہ محرک (incentive) جگاتی ہے کہ وہ دوبارہ نئے سرے سے کوشش کرکے کامیابی حاصل کرے۔
فرشتوں نے انسان کے بارے میں سفک دماء اورفساد کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، اللہ تعالی نے سفک دماء اور فساد کےمقابلے میں مثبت پہلو کا حوالہ دیا، اور فرشتوں کو مظاہرے کی صورت میں بتایا کہ انسان کی یہ صفت اس کے اندر نئی سوچ پیدا کرے گی، اور وہ ایسے کام کرسکیں گے، جو اس سے پہلے نہ حیوانات نے کیا، اور نہ جنات نے۔
تاریخ کے واقعات کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو جن اوصاف کے ساتھ پیدا کیا جارہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے لیے فساد فی الارض اور سفک دماء جیسے واقعات اپنے عمل پر نظر ثانی (rethinking) کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس طرح اس قسم کے منفی واقعات اس کے لیے مثبت نتیجہ کا سبب بنیں گے۔ وہ بار بار اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے گا۔ اس طرح منفی واقعات باعتبار نتیجہ اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کا سبب بن جائیں گے۔ اس کو اپنی غلطیوں سے اپنے لیے نیا ڈائریکشن (new direction) ملے گا۔ اس طرح ہر غیر مطلوب تاریخ کے بعد مطلوب تاریخ بنے گی، اور اس طرح انسان کی تاریخ عملاً صحیح رخ پر سفر کرتی رہے گی، اور اس طرح وہ بڑے بڑے نتائج تک پہنچے گی۔ اس سلسلے میں چند تاریخ مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں— غالباً منفی واقعہ سے مثبت واقعہ نکلنے کا یہی وہ ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں قانونِ دفع سے تعبیر کیا گیا ہے۔