دورِ امن کی طرف
قرآن میں اصحابِ رسول کو ایک حکم ان الفاظ میں دیا گیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِینَ (2:193)۔ یعنی اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (سب )اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد جارحیت نہیں ہے، مگر ظالموں پر۔
قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں کہا گیا ہے کہ جنگ کرو یہاں تک کہ فتنے کا خاتمہ ہوجائے،دوسرے حصے کے الفاظ یہ ہیں کہ "دین اللہ کا ہوجائے"۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا، اور دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں فطری حالت قائم تھی، اور فطری حالت امن کی حالت ہے۔ لیکن بعد کو ایسا ہوا کہ دنیا میں ڈسپاٹک کنگ (despotic king) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی جبر و تشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی، کیوں کہ یہ حالت اللہ کے منصوبۂ تخلیق کے خلاف تھی ۔ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول اور اصحابِ رسول کویہ حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طور پر تشدد کی حالت قائم کر رکھی ہے، اس کو بزورِ طاقت ختم کردو، تاکہ دوبارہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اسی بنا پر قائم تھا۔چنانچہ اصحابِ رسول کو اپنے زمانے کے اربابِ اقتدار سے جنگ کرنا پڑا۔ یہی وہ تاریخی انقلاب ہے، جس کی طرف بائبل میں ان الفاظ اشارہ کیا گیا ہے: اس نے نگاہ کی، اورقومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھگ گئے (حبقوق، 3:6)۔ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے وقوع پذیر ہوا۔ اصحاب رسول نے اس وقت کے جبری نظام کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد دنیا میں ایک نئے دور کا پراسس شروع ہوگیا، یعنی جنگ کے دور کا خاتمہ اور امن کے دور کا آغاز۔
تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا، بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہوکر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دورِ امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانے میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا، وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دورِ امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پرامن طریقِ کار کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔