ڈی لنکنگ کا اصول
خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی ایمپائر سے پیش آیا۔ مسلمان جب پیش قدمی کرنے لگے تو ایرانی فوج کےسپہ سالار رستم نے مسلم فوج کے سردار سعد بن وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنا نمائندہ گفت وشنید کے لیے بھیجو ۔ وہ دربار میں پہنچے تو رستم نے اُن سے کہا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے ہو۔ اِس سوال کے جواب میں ربعی بن عامر نے کہا:اللَّہُ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّہِ (البدایة والنہایة،جلد 7، صفحہ 39)۔ یعنی اللہ نے ہم کو بھیجا ہے، تاکہ جو چاہے، اُس کو ہم انسان کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لے آئیں۔اِس واقعے سے ایک اہم اصول اخذ ہوتاہے اور وہ ہے فرقان کا اصول، یعنی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا۔ صحابی کے قول کا مطلب یہ تھا کہ تم ہم کو حملہ آور نہ سمجھو، ہم دراصل تہذیبِ توحید کے نقیب (harbinger) بن کر آئے ہیں۔ ہم تمھارے لیے رحمت ہیں، نہ کہ کوئی مسئلہ۔
یہی معاملہ دورِ جدید کا ہے۔ دور جدید اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک موافقِ اسلام دور ہے، نہ کہ مخالفِ اسلام دور۔ دور جدید کو مخالفِ اسلام دور بتانا، صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی دورِ جدید کی الف ب بھی نہیں جانتا۔ ایسا آدمی دراصل مسلم قومی ذہن کے تحت سوچ رہا ہے اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو وہ اسلام کے اوپر منطبق کررہا ہے۔
دورِ جدید کیا ہے۔ دورِ جدید عقلی طرز فکر (rational thinking) کا نام ہے، اور عقلی طرز فکر مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید مذہبی آزادی کا دور ہے، اور مذہبی آزادی مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید کمیونی کیشن کا دور ہے، اور کمیونی کیشن مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے، وغیرہ۔ ایسی حالت میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دورِ جدید کے موافقِ اسلام پہلوؤں کو دریافت کرکے اس کو اسلام کےحق میں استعمال کریں۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی غلبہ کا دور آیا تو مسلم دنیا کے تمام رہنما، علما اور غیر علما دونوں اُن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اِس لڑائی میں انھوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ مسلم رہنما اگر صحابی رسول کی اِس مثال سے سبق لیتے اور اس کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرتے اور وہ کہتے کہ یہ نوآبادیاتی قومیں سادہ طورپر صرف حملہ آور نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger of a new civilization) ہیں۔ لہٰذاہم کو چاہیے کہ ہم اُن سے لڑنے کے بجائے، اُن سے نئے ترقیاتی ذرائع کو سیکھیں۔ ہمارے رہنما اگر اِس طرح ایک پہلو کو دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھتے اور اِس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو آج امتِ مسلمہ کی تاریخ مختلف ہوتی۔ آج مسلمان شکر کرنے والا گروہ ہوتے، جب کہ آج مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کرنے والا گروہ بنے ہوئے ہیں۔