یہود کی مثال
قرآن میں یہود کی تاریخ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ سورۃ الاسراء کی ابتدائی چند آیتوںمیں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں خرابی کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب ان میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کرو گے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کرو گے تب بھی اپنے لیے برا کرو گے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا زور چلے اس کو برباد کردیں (17:4-7)۔
قرآن کی ان آیتوں میں یہود کے بگاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ یہود کے اندر ہم نے مصلحین پیدا کیے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے اندر ہم نےاپنے زور آور بندے بھیجے، جنھوں نے ان کو تباہ و برباد کیا۔ یہود (بنی اسرائیل) کی تاریخ میں دوبار یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کو نبوکد نضر(1125-1104ق م) اور رومی بادشاہ ٹائٹس (39-81ء) نے فلسطین کے علاقے سے نکال کر بیرونی علاقہ میں پھیلادیا، جس کو ڈائسپورا (diaspora) کہا جاتا ہے۔ (دیکھیے، تفسیر ماجدی، سورہ بنی اسرائیل، حاشیہ7)
اس کی وجہ کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ ایک اعتبار سے سزا کا معاملہ تھا، اور دوسرے اعتبار سے اس کا مقصد یہ تھا کہ قدیم زمانے میں یہودی نسلوں میں جو تعطل (stagnation) آگیا تھا، اس کو توڑا جائے۔ ان کو دوبارہ یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے افراد کے اندر بیداری لائیں، اور ان کو احیا (revival) کا موقع مل سکے۔ ہار ش ٹریٹمنٹ کا یہ عمل یہود کے ساتھ کئی سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1948 میں ان کو دوبارہ یہ موقع دیا گیا کہ وہ فلسطین کے علاقے میں لوٹ کر آئیں، اور اپنی نئی زندگی شروع کریں۔ بد قسمتی سے اسرائیل کی یہ واپسی مثبت واپسی نہ بن سکی۔ اس واپسی کے ساتھ یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک خونی تصادم شروع ہوگیا، اور اس طرح وہ امکان واقعہ نہ بن سکا، جو اس معاملہ میں چھپا ہوا تھا۔
اگر مسلمان یہود کو دشمن سمجھنے کے بجائے مدعو سمجھتے، اور ان کے درمیان دعوتی کام کرتے تو عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی یا کلی طور پر وہی واقعہ پیش آتا، جو اس آیت میں مذکور ہے:وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:33-34)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
اس کے برعکس، اس بات کو ماننے کے لیے کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ یہود ابدی طور پر "ملعون" ہوچکے ہیں، اور اب ان کے لیے سچائی کے راستے پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بہت سے یہودیوں نے اسلام قبول کیا، اور اب بھی قبول کر رہے ہیں۔ مثلا آسٹریا کے لیو پولڈ اسد (1900-1992)، اور امریکا کی مارگریٹ جمیلہ (1934-2012)۔ اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہود کے اوپر قرآن کی یہ آیت (41:33-34) منطبق (apply) نہیں ہوتی ہے۔