حفاظت کا طریقہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس عصمت (حفاظت) کا وعدہ تھا، وہ اپنے دور کے لحاظ سے فرشتوں کے ذریعے تھا۔ لیکن بعد کے لوگوں کے لیے یہ حفاظت باعتبار حالات یا زمانی تقاضے کے تحت ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کے اس منصوبہ کے مطابق، تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود تاریخی اسباب اس بات کی ضمانت بن گئے کہ امت محمدی ایسی مصیبت سے محفوظ رہے، جو اس کے لیے دعوت الی اللہ کی ذمے داری کی ادائیگی میں حتمی رکاوٹ بن جائے۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مقصد بعد کے زمانے میں اس طرح حاصل ہوا کہ اللہ رب العالمین نے امن (peace) کو لوگوں کے لیے باہمی مفاد (mutual interest) کی چیز بنا دیا۔ لوگوں کی مفادپرستی کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول میں سرگرم رہیں، اور امت محمدی کے خلاف عداوتی منصوبہ نہ بنائیں۔

موجودہ زمانے میں یہ عمل (process) اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے— تاجر کو گراہک (customer) کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلمان ظالموں کے ظلم کا شکار ہیں، مسلمان ساری دنیا میں محاصرے (under siege) میں ہیں۔ دنیا میں اسلاموفوبیا (Islamophobia)پھیلا ہوا ہے،وغیرہ۔ مسلمانوں کی مظلومیت کا یہ افسانہ یقینی طور پر بے بنیاد ہے۔ یہ مسلمانوں کے بے خبر لوگوں کی اپنی سوچ ہے، نہ کہ زمانے کی حالت۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ جن باتوں کو مسلمانوں کے خلاف ظلم کا کیس بتاتا ہے، وہ صرف جوابی انتقام (retaliation) کا کیس ہے۔ مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر دوسروں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں، مثلاً دوسروںکو شتم رسول کا ملزم بتا کر ان کو مارنا، یا دوسروں کو دشمن قرار دے کر ان پر سنگ باری (stone-pelting) کرنا۔ اس بنا پر مسلمانوں کو دوسروں کی طرف سے ناموافق حالات کا تجربہ ہوتا ہے، مسلمان اگر اپنی طرف سے مفروضہ ظلم کے خلاف رد عمل کا طریقہ مکمل طور پر چھوڑ دیں تو اس کے بعد یقینی طور پر مسلمانوں کے خلاف تمام مخالفانہ کارروائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom