خدا کا منصوبہ

کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملاً ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔

ابدی جنت کی دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل موجودہ دنیا کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ جنت میں پوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities) کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔

جنت کے حصول کے لیے انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔

انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے، جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔

پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:

  1. نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
  2. طریقِ کار (Method)۔ پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom