تبلیغِ رسالت کا نظام
اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق،تبلیغ رسالت کا نظام یہ ہے کہ اللہ کا پیغام پہلے فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک آتا ہے، اور پھر رسول اس پیغام کو اپنے زمانے کے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ یہ اصول قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:اللَّہُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ(22:75)۔ یعنی اللہ فرشتوں میں سے اپنا پیغام پہنچا نے والا چنتا ہے، اور انسانوں میں سے بھی۔ بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ اس آیت میں اصلاً پیغمبر کے انتخاب کی بات ہے، لیکن تبعاً امت محمدی کے افراد بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سنت الٰہی کے مطابق، پیغمبر کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ لیکن دعوت کام ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ پیغمبر کی امتیوں کے ذریعہ بدستور جاری ہے۔
گویا دعوت الیٰ اللہ کے پیغام کے چار مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں اللہ رب العالمین سے فرشتے تک۔ دوسرے مرحلے میں فرشتے سے پیغمبر تک، اور تیسرے مرحلے میں پیغمبر کے ذریعہ اپنے معاصر انسانوں تک، اور آخری مرحلے میں امت کے منتخب افراد کے ذریعے عہد بہ عہد تمام انسانوں تک۔ یہ نظام عین فطرت کے مطابق ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ذمے داری امت محمدی کے اہل علم کی ہے کہ وہ پیغمبر سے ملے ہوئے دین خداوندی کو ہر زمانے کے انسانوں تک پہنچاتے رہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے، جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَکَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیداً (2:143)۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ (علیہم السلام) تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف، 7:68) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔ختم نبوت کے بعد یہ ذمے داری امت مسلمہ کی ہے کہ پیغمبروں کی طریقے پر تمام انسانوں کو خدا کا پیغام پہنچائے۔یہی اللہ رب العالمین کا مقرر کردہ دعوت حق کا نظام ہے۔
اس نظام میں جو لوگ واسطہ بنیں ، ان کے اوپر فرض ہے کہ وہ اس نظام کے اندر اپنی ذمہ داری کو دریافت کریں، اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں لگ جائیں۔ دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور نان کمیونل انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ، 9:60) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں۔