عصری اسلوب میں  اسلامی لٹریچر

پروفیسر محمد مجیب (وفات 1985 ) جامعه ملّیه اسلامیه (نئی دهلی) کے تین بڑے ستونوں میں  سے ایك تھے۔ بقیه دو یه تھے: ڈاکٹر ذاکر حسین (وفات1969)، ڈاکٹر عابد حسین (وفات1978)۔ پروفیسرمجیب نهایت اعلیٰ تعلیم یافته تھے۔ اُن کو انگریزی زبان پر غیر معمولی قدرت تھی۔ انھوں نے مستشرقین (orientalists)کا لٹریچر تفصیل کے ساتھ پڑھا تھا۔

غالباً 1970  کی بات هے۔ میں  جامعه ملیه کے کیمپس میں  پروفیسر مجیب سے ملا۔ اُس وقت پروفیسر انوار علی خاں سوز (وفات1987  ) بھی میرے ساتھ تھے۔ گفتگو کے دوران پروفیسر مجیب نے خاص انداز میں  مجھ سے کها: مولوی صاحب، آپ جانتے هیں که اِس زمانے میں  اسلام کی نمائندگی یهودی اسکالرکررهے هیں۔

اُن کا مطلب یه تھا که موجوده زمانے میں  ایك نیا اسلوبِ تحریر پیدا هوا هے۔ اِس اسلوبِ تحریر میں ، مسلم علما اسلامی لٹریچر تیار نه کرسکے۔ البته تعلیم یافته یهودیوں نے یه کام کیا۔ انھوں نے وقت کے جدید اسلوب میں  اسلام کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ اِن کتابوں میں اگر چه اسلام کی تعلیمات کو بگڑی هوئی صورت میں پیش کیاگیا هے، لیکن اسلوبِ تحریر کے اعتبار سے وه وقت کے اسلوب میں هیں۔ اس لیے آج جو تعلیم یافته لوگ انگریزی زبان میں اسلام کا مطالعه کرنا چاهتے هیں، وه اکثر اِنھیں یهودی علما کی کتابوں کا مطالعه کرتے هیں۔

میں پروفیسر مجیب کی باتوں کو سنتا رها۔ میں نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نهیں دیا، لیکن اُن کی بات کو سن کر میرے دماغ میں ایك بھونچال آگیا۔میں خاموشی کے ساتھ واپس آگیا اور پھر رات دن یه دعا کرنے لگا که خدایا، مجھے توفیق دیجیے که میں آپ کے دین کو آج کے اسلوب میں دنیا کے سامنے پیش کرسکوں، میں عصری اسلوب میں اسلام کا لٹریچر تیار کرسکوں۔

میں اکثر کسی واقعے کا حواله دے کر دعا کرتا هوں۔ اِس معاملے میں بھی میں نے ایسا هی کیا۔ اصل یه هے که آزادی کے بعدیوپی میں خاتمهٔ زمین داری کا قانون(zamindari abolition act) نافذ هوا۔ نیشنل گورنمنٹ کے تحت، یه قانون اِس اصول پر مبنی تھا که — جو جوتے، اُس کا کھیت۔

میرا خاندان یوپی کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھتا تھا۔ همارا خاندان وهاں کے بڑے زمین داروں میں سے ایك تھا۔ هماری زمینیں زیاده تر کسانوں کو دی هوئی تھیں، جو اُن کو جوتتے تھے اور لگان ادا کرتے تھے۔ خاتمهٔ زمیں داری کے قانون کے مطابق، زمین دار کو اُس کی زمین واپس ملنے کی صرف ایك هی صورت تھی، وه یه که زمین کو جوتنے والا کسان تحریری طورپر زمین سے استعفا دے دے۔

هماری بیش تر زمینیں کسانوں کے پاس تھیں۔ یه کسان سب کے سب هندو لوگ تھے۔ هماری زمیں داری کے مینیجربھی ایك هندو تھے، جن کا نام بھاؤ رام تھا۔ بھاؤ رام همارے خاندان کے نهایت وفادار ملازم تھے۔ انھوں نے ایك طوفانی مهم چلادی که تمام کسان جو هماری زمینوں کو جوتے هوئے تھے، وه تحریری استعفا دے دیں۔ بھاؤ رام نے اپنی رات دن کی کوشش سے ایك ایك کسان سے استعفا لکھوا لیا۔ همارے ساتھ استثنائی طورپر ایسا هوا که همارا کوئی بھی کھیت ایسا نه بچاجس کا تحریری استعفا حاصل نه کرلیا گیا هو۔

اُس زمانے میں بھاؤ رام پر ایك دیوانگی طاری تھی۔ وه هم لوگوں سے کهتے تھے که: بابو، جِم داری میں داگ نه لگنے پائے (بابو، زمیں داری میں داغ نه لگنے پائے) میں اِس واقعے کے حوالے سے خدا سے دعا کرنے لگا۔ میں روتا تھااور یه کهتا تھا که خدایا، تیرے دین میں ایك داغ لگ رها هے۔ تیرا دین اُس اسلوب میں پیش نهیں هورها هے جو آج کے جدید ذهن کو ایڈریس کرسکے۔ تو مجھے توفیق دے که میں تیرے دین کے اِس داغ کو هٹاؤں، میں وقت کے اسلوب میں اسلام کو پیش کرسکوں۔میں بے قرار دل اورا شك بار آنکھوں کے ساتھ یه دعا کرتا تھا اور رات دن اپنی تیاری میں مشغول رهتا تھا۔

اُس زمانے میں میری بے قراری کا عالم یه تھا که ایك بار میں دلّی پبلك لائبریری میں گیا۔ وهاں کے ریفرنس سیکشن میں جاکر ریفرنس کی کتابوں کو پڑھنے لگا۔ اُس وقت میری محویت کا یه عالم تھا که میں قریب کی کرسی پر نه بیٹھ سکا۔ میں الماری کے سامنے کھڑا تھا اور کتابیں نکال نکال کر پڑھ رها تھا۔ یه سخت سردی کا زمانه تھا۔ چناں چه مجھے سردی لگ گئی اور میں بیمار هو کر تقریباً دو مهینے تك بستر پر پڑا رها۔

آج جب که میں یه سطریں لکھ رها هوں، میں کهه سکتا هوں که میں نے خدا کی توفیق سے تقریباً هر اسلامی موضوع پر اتنی کتابیں لکھی هیں، جو ایك تعلیم یافته انسان کے لیے وقت کے اسلوب میں اسلام کا مؤثر تعارف پیش کرتی هیں۔مشرق اور مغرب دونوں جگه کے اهلِ علم نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا هے۔

لوگوں کا یه تاثر یهاں تك پهنچا هے که دنیا کے مختلف حصو ں میں بهت سے تعلیم یافته لوگوں نے میرے لٹریچر کو پھیلانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی هیں۔ امریکا میں مقیم کچھ تعلیم یافته مسلمانوں نے اپنے ذاتی جذبے کے تحت ، میری تمام کتابوں اور ماه نامه الرساله کو انٹرنیٹ کے ویب سائٹ پر ڈال دیا هے۔ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی آدمی میری تحریروں کو اردو اور انگریزی میں انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتا هے۔

اِسی طرح مصر کے کچھ عرب حضرات میری کتابوں کو انٹرنیٹ پر ڈال رهے هیں۔ ان شاء الله، اب هر جگه میری عربی کتابیں بھی انٹر نیٹ کی مدد سے پڑھی جاسکیں گی۔ اِس کے علاوه، انڈیا میں ایك پوری ٹیم نے اپنے آپ کو اِس مشن کے لیے وقف کردیا هے۔ اِس طرح یه کام اب هر دن عالمی سطح پر پھیل رها هے۔ اسی طرح کچھ تعلیم یافته لوگوں نے اِس لٹریچر کو اتنی زیاده اهمیت دی که انھوں نے محض ذاتی جذبے کے تحت، میری اردو اور انگریزی تقریروں کو ٹی وی کے پروگرام میں شامل کردیا۔ فجزاهم اللّٰه  خیرا الجزاء۔

’’عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر‘‘ کا وجود میں آنا بلا شبه ایك غیر معمولی واقعه تھا۔ میرے جیسے عاجز اور بے حقیقت آدمی کے ذریعے یه واقعه پیش آیا۔ اِس واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیهه ممکن نهیں که اسمِ اعظم کے ساتھ مانگی جانے والی دعا جو میرے بے قرار دل سے نکلی، اُس کو خدا نے قبول فرمایا اور اِس طرح اسلام کے جدید تعارف کا وه واقعه پیش آیاجو میرے جیسے انسان کے لیے ناقابلِ تصور تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom