اسماءِ حسنیٰ اور دیگر مذاهب

اسماءِ حسنیٰ کا مطالعه تاریخی نقطهٔ نظر سے کیا جائے تو ایک انوکھی چیز دریافت هوگی، وه یه که اسماءِ حسنیٰ کا تصور(concept) اسلام کے سوا کسی اور موجوده مذهب یا کسی اور موجوده اعتقادی نظام میں نهیں پایا جاتا۔یه اسلام کی استثنائی صفت هے که اُس کے اندر خدا کے بارے میں اسماءِ حسنیٰ کا تصور پایا جاتا هے۔یه کوئی ساده بات نهیں۔ اگر آپ اسلام اور دوسرے مذاهب کا تقابلی مطالعه کریں تو معلوم هوگا که اپنی نوعیت کے لحاظ سے یه بے حدسنگین بات هے۔ چناںچه اِسی کا یه نتیجه هے که اسلام کے سوا، دوسرے مذاهب میں انسان اور خدا کے درمیان گهرا تعلق سرے سے نهیں پایا جاتا۔ هر دوسرے مذهب میں خدا کی حیثیت صرف ایک علامتی هستی(symbolic god)  کی هے، نه که ایک حقیقی اور زنده خدا کی۔

مثال کے طورپر یهودی مذهب کو لیجیے۔ یهودی اعتقادیات کا ماخذ بائبل (عهد نامه قدیم) هے۔ آپ اِس کتاب کا مطالعه کریں تو اُس میں اسماءِ حسنیٰ کی نوعیت کا خداوندی تعارف موجود نهیں۔ ایک جگه خدا کو بتاتے هوئے، اُس کے بارے میں ’’میں جو هوں، سو میں هوں‘‘کے الفاظ آئے هیں۔ اِس سلسلے میں بائبل کے اصل الفاظ اس طرح هیں:

تب موسیٰ نے خدا سے کها: جب میں بنی اسرائیل کے پاس جاکر اُن کو کهوںکه تمھارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمھارے پاس بھیجا هے اور وه مجھے کهیں که اُس کا نام کیا هے، تو میں اُن کو کیا بتاؤں۔ خدا نے موسیٰ سے کها: میں جو هوں ، سو میں هوں۔ سو تو، بنی اسرائیل سے یوں کهنا که میں جو هوں نے مجھے تمھارے پاس بھیجا هے(خروج 3: 13, 14   )۔

اِسی طرح مسیحیت کا مذهبی ماخذ وه کتاب هے جس کو نیا عهد نامه (بائبل) کهاجاتاهے۔ اِس نیے عهد نامے میں بتایا گیا هے که حضرت مسیح جب صلیب پر چڑھائے گیے تو اُن کی زبان سے یه الفاظ نکلے: اِلوهی، اِلوهی، لما شبقتنی، یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا:

My God, my God, why have You forsaken me.  (Mark, 15:34)

مسیحی چرچ کے عقیدے کے مطابق، حضرت مسیح کا سُولی پر چڑھ کر مصلوب هونا کوئی اتفاقی حادثه نه تھا، وه مسیحی چرچ کے عقیدے کے مطابق، ایک خدائی منصوبے کے تحت پیش آیا۔ کَفّارهٔ مسیح کے عقیده(atonement) کے مطابق، خدا نے حضرت مسیح کو اِسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا تھا که وه انسانی گناه کا کفاره ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھ جائیں، اور انھوں نے بخوشی ایسا کیا۔

مسیحی چرچ کے مبیّنه عقیدے کے مطابق، خدا، تثلیث کا ایک حصه هے۔ مسیحی عقیدے کو ٹری نِٹی (trinity) کے لفظ میں بیان کیا جاتا هے، یعنی تین میں ایک اور ایک میں تین۔ اِس عقیدے کے مطابق، حضرت مسیح عام انسان نهیں تھے، بلکه وه خدا کا ایک حصه تھے۔

ایسی حالت میں حضرت مسیح کا مذکوره واقعه، انسان کے لیے خدا کے معاملے میں یقین کا سرچشمه نهیں بن سکتا۔اِس واقعے میں خدا خود بے بس هو کر فریاد کررها هے۔ وه خود اپنے آپ کو ایک متروک وجود سمجھتا هے۔ اُس کے اندر یه طاقت نهیں که وه اپنے آپ کو وقت کے حکم رانوں سے محفوظ رکھ سکے۔ ایسا خدا، دوسرے انسانوں کے لیے کس طرح اعتماد کا سرچشمه بن سکتا هے۔ انسان کو ایک ایسا خدا چاهیے جو اُس کے لیے اعتماد کا ذریعه بن سکے، مگر مسیحیت، انسان کو ایک ایسے خدا کا تصور دیتی هے جس میں خدا خود هی بے بس دکھائی دے رها هے۔

اِس کے بعد اُن مذاهب کو لیجیے جن کو آرِین مذاهب کهاجاتا هے، یعنی هندوازم، وغیره۔ اِن مذاهب میں پرسنل گاڈ(personal God) کا تصور موجود نهیں۔ اِن مذاهب میں اگر چه خدا کا لفظ استعمال هوتا هے، مگر وه صرف ایک علامتی لفظ هوتا هے، کیوں که اِن مذاهب میں عقیدهٔ خدا کے تشخّص کے لیے کسی مستقل وجود کا کوئی تصور نهیں۔

جیسا که معلوم هے، آرین مذاهب میں خدا کو نِراکار (formless God) مانا جاتا هے۔ اُن کے عقیدے کے مطابق، خدا ’نِرگُن‘ هے، یعنی اُس کی کوئی صفت نهیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے ممکن نهیں که وه خدا کو ایک متعین هستی کے طورپر اپنے ذهن میں لائے۔ یهی وجه هے که هندو مذهب میں خدا کی کوئی عبادت گاه نهیں هوتی۔ اُن کے یهاں یا بُتوں کی پرستش هوتی هے یا گُروؤں کی۔ کیوں که بت یا گُرو کا تشخص اُن کو ممکن دکھائی دیتا هے، لیکن خدا کا تشخص اُن کے لیے قابلِ تصور نهیں هوتا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom