دعا کیا هے
دعاکسی ٹکنکل واقعے کا نام نهیں،دعا ایك داخلی طوفان کا خارجی اظهار هے۔ جب ایك انسان خدا کو اُس کی عظمت و کبریائی کے ساتھ دریافت کرتا هے، جب ایسا هوتا هے که خدا کے بارے میں سوچتے هوئے اُس کو خدا کی موجودگی کا اتنا شدید احساس هوتا هے که گویا وه خدا کے پڑوس میں پهنچ گیا هے۔ جب اُس پر وه طوفانی تجربه گزرتا هے، جس کو حدیث میں: ذَکَر الله خالیاً، ففاضت عیناه (صحيح البخاري، حديث نمبر 1423) کے الفاظ میں بیان کیاگیا هے، یعنی آدمی نے اپنی تنهائی میں خدا کو یاد کیا اور شدتِ تاثر سے اُس کی آنکھوں سے آنسو بهه پڑے۔ اُس نے دنیائے امتحان کے بارے میں سوچا، اُس نے موت اور روزِ حساب کا گهرا ادراك کیا، وه اُن ربّانی کیفیات سے گزرا، جب که انسان کو جهنم کے شعلے بھڑکتے هوئے نظر آتے هیں اور دوسری طرف اُس کو جنت کے ابدی مناظر دکھائی دینے لگتے هیں۔ جب اُس پر یادِ خداوندی کا وه گهرا تجربه گزرتا هے، جب که سب کچھ اس کی نظروں سے محو هوجاتا هے، خدا کے سوا هر چیز اُس کی نظر میں بے حقیقت بن جاتی هے۔
ایسے طوفان خیز لمحات میں یه هوتا هے که اُس کے دل و دماغ میں ایك بھونچال آجاتا هے۔ اُس کی آنکھوں سے خوفِ خدا کا سمندر امڈ پڑتا هے۔ جب سوچنے کی صلاحیت بظاهر ختم هوجاتی هے اور صرف محسوس کرنے کی صلاحیت باقی رهتی۔ اُس وقت ایسا هوتا هے که انسان بے تابانه طورپر اپنے رب کو پکارنے لگتا هے۔ اُس کے اندر چھپی هوئی ربّانی فطرت الفاظ کی صورت میں بهه پڑتی هے۔ ایسے طوفانی لمحات میں آدمی کی زبان سے جو کچھ نکلتا هے، اُسی کا نام دعا هے۔ یهی وه دعا هوتی هے جو اسمِ اعظم کی زبان میں نکلتی هے اور ایسی دعا همیشه اپنی پهلی زبان میں هوتی هے، نه که اپنی دوسری زبان میں۔