دعا کی طاقت
حدیث میں آیا هے که :لا یردّ القضاء إلا الدعاء (التّرمذي، حديث نمبر2139) یعنی قضا اور قدر کے فیصلے کو صرف دعا بدل سکتی هے۔ خدا نے اِس دنیا کا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر قائم کیا هے، اور پھر انسان کو مکمل آزادی دے دی هے۔ اب انسان اپنی آزادی کے مطابق عمل کرتا هے اور خدا کے قائم کرده نظام اسباب و علل سے مطابقت یا مخالفت کی بنیاد پر اس کا اچھا یا برُا نتیجه اس کے سامنے آتا هے۔ میں سمجھتا هوں که یه نظام بالکل حتمی هے۔ کوئی آدمی خواه مخلص هو یا غیر مخلص، اُس کو بهر حال اِس نظام کو بھُگتنا هے۔ کسی بھی شخص کے لیے اِس نظام کو منسوخ نهیں کیا جاسکتا۔
اِس معاملے میں صرف ایك استثنا هے اور وه دعا کا هے۔ کوئی آدمی جب سچی دعا کرتا هے اور اُس وقت اگر خدا اس کی دعا قبول کرلیتا هے تو وه اسباب کے نظام میں مداخلت کرکے اس کا راسته هموار کردیتا هے۔ یهی مطلب هے اِس بات کا که دعا، قضا اورقدر کو بدل دیتی هے۔
لیکن دعا الفاظ کی تکرار کا نام نهیں هے، حتی که قرآنی دعائیں یا ماثور دعائیں بھی اگر صرف رَٹے هوئے الفاظ کی تکرار هوں تو وه بھی مؤثر نهیں هوسکتیں۔ نظامِ قضا کو بدلنے کے لیے وه دعا درکار هے جو دل کو پھاڑ کر کی جاتی هے، جو دل کی پھٹن کی آواز هوتی هے، جس میں آدمی کا پورا وجود شامل هوجاتاهے، جو انسانی شخصیت میں ایك بھونچال کے بعد ظهور میں آتی هے۔
اِس قسم کی دعا کی قبولیت کی ایك اور شرط یه هے که دعا کرنے والے کا ذهنی تزکیه اتنا زیاده هوچکا هو که اس کی سوچ خدا کی سوچ بن جائے۔ ایسا آدمی وهی دعا کرے گا جو خدا کے نزدیك قابلِ قبول هوتی هے۔ اس کی زبان سے ایسی دعا نهیں نکلے گی جو خدا کی سنّت کے مطابق، قابلِ قبول هی نهیں۔