ایك واقعه
میری ملاقات ایك صاحب سے هوئی۔ انھوں نے کها که میں دس سال سے ایك سوال کا جواب تلاش کر رها هوں، لیکن اب تك مجھے اُس کا جواب نهیں ملا۔ میں نے پوچھا که آپ کا وه کیا سوال هے۔ انھوں نے کها که میں یه جاننا چاهتا هوں که اسمِ اعظم کیا هے۔ اِس سلسلے میں، میں نے بهت سی کتابیں پڑھیں، بهت سے علما اور بزرگوں سے ملاقاتیں کیں، مگر اب تك کسی نے اِس کا تشفی بخش جواب نهیں دیا۔ اب میں آپ کے پاس آیا هوں۔ اگر ممکن هو تو آپ مجھے اس کا جواب دے کر میری پریشانی کو دور فرمائیں۔
میں نے کها آپ کی پریشانی ایك خود ساخته پریشانی هے۔ آپ نے یه فرض کرلیا هے که اسمِ اعظم جادو کے منتر کی طرح کوئی منتر هے۔ اب آپ چاهتے هیں که منتر کا وه لفظ آپ کو معلوم هوجائے، مگر ایسا هوناکبھی ممکن نهیں۔میں نے کها که اسمِ اعظم کسی لفظ کا نام نهیں هے، بلکه کیفیت کا نام هے۔ کیفیتِ اعظم کے ساتھ جو دعا کی جائے، وهی اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا هے۔ یه دراصل آپ کی اپنی قلبی کیفیت هے جو کسی دعا کو اسمِ اعظم کی دعا بناتی هے۔ کسی انسانی لفظ میں یه طاقت نهیں که وه خدا کا اسمِ اعظم بن جائے، وه خدا کی لا محدود هستی کا احاطه کرلے۔
میں نے کها که آپ هی کی طرح کا ایك شخص تھا۔ اُس کو ایك خزانے کی تلاش تھی۔ اُس کو معلوم هوا که یه خزانه فلاں پهاڑ کی چوٹی پر ایك محل کے اندر رکھا هوا هے۔ اِس محل کے گیٹ پر ایك تالا لگاهوا هے۔ یه تالا کسی کنجی سے نهیں کھلتا ، بلکه وه ایك منتر سے کھلتاهے۔ اب اُس کو اُس منتر کی تلاش هوئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وه ایك جگه پهنچا۔ یهاں اُس کی ملاقات ایك سادھو سے هوئی۔ جو اُس منتر کو جانتا تھا۔
اس نے سادھو سے درخواست کی که وه اُس کو یه منتر بتادے۔ سادھو نے اُس کو وه منتر بتا دیا۔ سادھو نے کها که وه منتر ’’سِم سِم‘‘ هے۔ تم فلاں پهاڑ کی چوٹی پر جاؤ۔ وهاں تم کو ایك محل ملے گا۔ اِس محل کے گیٹ پر ایك تالا لٹکا هوگا۔ تم اُس کے سامنے کھڑے هو کر کهنا: کُھل اے سِم سِم، کھل اے سِم سِم، پھر وه تالا کھل جائے گا۔ وه آدمی روانه هوا۔ لمبے سفر کے بعد وه محل کے گیٹ پر پهنچا، مگر اُس وقت وه منتر کو بھول چکا تھا۔ وه گیٹ کے سامنے کھڑا هو کر دوسرے دوسرے الفاظ بولتا رها۔ مثلاً کُھل اے ٹَم ٹَم، کھل اے دَم دَم، کھل اے بم بم، مگر دروازه نهیں کھلا۔ اب وه وهاں سے واپس هو کر دوباره سادھو کے پاس گیا۔ سادھو نے کها که تم غلط منتر بول رهے تھے، اس لیے تالا نهیں کھلا۔ دوباره جاؤ اور سم سم کهو۔ آدمی نے منتر کو خوب اچھی طرح یادکر لیا اور سفر کرکے دوباره وهاں پهنچا۔ اُس نے محل کے گیٹ کے سامنے کھڑے هوکر کها: کھل اے سِم سِم اور پھر فوراً دروازه کھل گیا۔
اکثر لوگ اسم اعظم کو اِسی قسم کا ایك طلسماتی لفظ سمجھتے هیں، مگر اِس قسم کی سوچ بالکل غلط هے۔ یه ایك حقیقت هے که اسمِ اعظم ڈکشنری کے کسی لفظ کا نام نهیں، وه انسان کی اپنی داخلی کیفیت کا نام هے۔ جب بھی کوئی سچا بنده، اعلیٰ قلبی کیفیات کے ساتھ دعا کرتا هے تو اُس کو فرشتوں کی مدد حاصل هوجاتی هے۔ اُس وقت اُس کے اندر سے مخصوص قسم کے ربّانی الفاظ نکلنے لگتے هیں، اِسی کا نام اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا هے۔ اِس قسم کی دعا، خدائی الهام کے تحت هوتی هے اور جو دعا خدائی الهام کے تحت انسان کے دل سے نکلے، اُس کا معامله وهی هوتا هے جس کو ایك فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں نظم کیا هے:
اجابت از درِ حق بهرِ استقبال می آید