ایك تاریخی مثال
سلطان عبد الرحمن الناصر (وفات961 ء) اسپین (اندلس) کا ایك مسلم حکمراں تھا۔ اُس نے پچیس سال کی محنت سے قرطبه کے پاس ایك شان دار محل بنایا۔ یه محل چار میل لمبی اور تین میل چوڑی زمین میں واقع تھا۔ اس محل کا نام اس نے الزّهرا رکھا۔ مگر غیر معمولی طورپر بڑا هونے کی وجه سے اس کو قصر الزهرا کے بجائے مدینۃ الزهرا کهاجانے لگا۔
سلطان عبد الرحمن الناصر کو عمارتوں کا بهت شوق تھا۔ اس نے الزّهرا کے نام سے یه شاهی بستی بسائی اور اس میں شان دار محل تعمیر کیے۔ اِن تعمیرات کے آخری دنوں میں سلطان اتنا مشغول رها که مسلسل تین جمعه میں وه مسجد نه پهنچ سکا۔ چوتھے جمعه کو جب سلطان جامع مسجد پهنچا تو اس کی موجودگی میں قاضی منذر (وفات966 ء) نے جو خطبه دیا، اُس میں نام لیے بغیر سلطان پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
قاضی منذر نے ایسی آیتیں پڑھیں جن میں دنیا میں عمارتیں کھڑی کرنے اور آخرت سے غافل هوجانے پر وعیدیں تھیں۔ مثلاً— کیا تم هر بلندی پر عبَث یادگاریں تعمیر کرتے هو اور شان دار محل بناتے هو گویا که تم کو همیشه اِسی دنیا میں رهنا هے۔ اور جب تم کسی پر حمله کرتے هو تو جبّارانه حمله کرتے هو۔ پس الله سے ڈرو اور میری بات مانو (26:128-131)، تمھارا کیا خیا ل هے که بهتر انسان وه هے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی هو، یا وه جس نے اپنی عمارت ایك وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وه عمارت اُس کو لے کر جهنم کی آگ میں جاگری۔ ایسے ظالم لوگوں کو الله کبھی سیدھی راه نهیں دکھاتا۔ یه عمارت جو انھوں نے بنائی هے، همیشه اُن کے دلوںمیں بے یقینی کی جڑ بنی رهے گی، یهاں تك که اُن کے دل ٹکڑے ٹکڑے هوجائیں۔ اور الله علیم اور حکیم هے(9: 109-110)۔
اِسی طرح قاضی منذر نے اِس مضمون کی بهت سی حدیثیں سنائیں اور ان کی تشریح کی۔ اپنے خطبے میں اگرچه انھوں نے سلطان کا نام نهیں لیا، مگر مسجد کا هر نمازی سمجھ رها تھا که اِن سخت تنقیدوں کا مخاطب کون هے اور وه کس کے اوپر پڑ رهی هیں۔
تنقید، یوں بھی آدمی کے اوپر بهت سخت هوتی هے اور جب مجمعِ عام میں کسی پر تنقید کی جائے تو وه اور بھی زیاده ناگواری کا باعث هوتی هے۔ مزید یه که یه تنقید ایك ماتحت کی زبان سے اپنے حاکم کے اوپر تھی۔ اور جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کو تنقید کرتے هوئے سنتا هے تو اس پر کبر کا سخت دَوره پڑتا هے۔ بڑے بڑے شریف اور دین دار لوگ بھی اُس وقت قابو سے باهر هوجاتے هیں، مگر سلطان نے حد درجه ضبط سے کام لیا۔ اگرچه سلطان پر اس تنقید کا بهت زیاده اثر تھا، مگر وه مسجد میں کچھ نه بولا اور نماز کے بعد خاموشی سے اٹھ کر باهر آگیا۔
گھر پهنچ کر سلطان نے اپنے لڑکے الحکم سے کها که آج قاضی منذر نے مجھ کو بهت سخت تکلیف دی۔ اب میں نے طے کرلیا هے که میں اُن کے پیچھے کبھی جمعه کی نماز نهیں پڑھوں گا۔ الحکم نے کها: قاضی منذر کا امام هونا یا نه هونا آپ کے اختیار میں هے، آپ اُن کو معزول کردیجیے اور اُن کی جگه دوسراکوئی امام مقرر کردیجیے، جو ایسی گستاخی نه کرے۔ یه سن کر سلطان غصے میں آگیا۔ اُس نے اپنے لڑکے کو ڈانٹ کر کها: تمھارا بُرا هو، ایك شخص جو هدایت سے دور هے اور راستے سے بھٹکا هوا هے، کیا اُس کی خوشی کی خاطر قاضی منذر جیسے خوبیوں والے آدمی کو معزول کردیا جائے گا۔ یه بات کبھی نهیں هوسکتی (هذا ما لا یکون)۔
مجھے اُن کی باتوں سے چوٹ لگی، اِس لیے میں نے اُن کے پیچھے جمعه نه پڑھنے کی قسم کھالی۔ میری خواهش هے که اِس قسم کے کفّارے کی کوئی صورت نکل آئے۔ تاهم قاضی منذر هماری زندگی میں اور اپنی زندگی میں لوگوں کو نماز پڑھاتے رهیں گے : بل یصلّی بالناس حیاتنا وحیاته إن شاء اللّٰه تعالیٰ(تاریخ قُضاۃ الأندلس،صفحه 70)، چنانچه قاضی منذر بدستور جمعه کی نماز پڑھاتے رهے۔ عبد الرحمن الناصر کے انتقال کے بعد اُس کے لڑکے نے بھی اُن کے مقام کو اُسی طرح باقی رکھا۔
اوپر جس واقعے کا ذکر هوا، اُس میں بهت بڑا سبق هے۔ اِس سے معلوم هوتاهے که کسی انسان کی وه مطلوب صفات کیا هیں، جو اگر کسی کے اندر هوں تو اُس کو یه خوش قسمتی حاصل هوتی هے که وه خدا سے ایسی دعا کر سکے جس کو اسمِ اعظم کے ساتھ کی جانے والی دعا کهاجاتا هے۔
اسمِ اعظم کے ساتھ دعا میں اگر پچاس فی صد اسمِ اعظم کا حصه هے تو پچاس فی صد خود دعا کرنے والے کی ربّانی استعداد کا حصه هے۔ یه ربّانی استعداد قاضی منذر اور سلطان عبد الرحمن دونوں کے اندر کم وبیش موجود تھی، اِس لیے اُن کے ساتھ ایك عظیم دعا کی تاریخ شامل هوگئی۔ حسب ذیل واقعه اِس معاملے میں ایك چشم کُشا مثال کی حیثیت رکھتا هے۔