ایك واقعه
رام پور (یوپی) کا واقعه هے۔ ایك بچے نے اپنے باپ سے کها که— میرے لیے ایك بائیسکل خرید دیجئے۔ با پ کی آمدنی کم تھی، وه بائیسکل خریدنے کی پوزیشن میں نه تھا، اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کهتا رها اور باپ بار بار منع کرتا رها۔ بالآخر ایك روز باپ نے ڈانٹ کر کها: میں نے کهه دیا که میں بائیسکل نهیں خریدسکتا۔ اب آئنده مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا، ورنه میں تم کو ماروں گا۔
یه سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وه کچھ دیر چپ رها۔ اس کے بعد وه روتے هوئے بولا—آپ هی تو همارے باپ هیں، آپ سے نه کهیں تو اور کس سے کهیں۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانك اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کها: اچھا بیٹے اطمینان رکھو، میں تمھارے لیے بائیسکل خریدوں گا، اور کل هی خریدوں گا۔ یه کهتے هوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسے کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے ایك نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاهر ایك لفظ کها تھا، مگر یه ایك ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری هستی شامل هوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یه تھا که اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا هے۔ یه لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایك ایسے نقطے پر کھڑا کر دیا جهاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا هی بڑا مسئله بن گئی جتنا که وه خو د اس کے لیے تھی۔بیٹے کے الفاظ نے باپ کو اِس سنگین سوال سے دوچار کردیا که اگر وه اپنے بیٹے کو بائیسکل نه دے تو اُس کی پِدریت (fatherhood) هی مشتبه هوجائے گی۔
اس واقعے سے سمجھا جاسکتا هے که دعا کی وه کون سی قسم هے جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امڈ آتی هیں۔ یه رٹے هوئے الفاظ کی تکرار نهیں هے، نه اس کا کوئی ’’رسمی نصاب‘‘ هے۔ یه دعا کی وه قسم هے جس میں بنده اپنی پوری هستی کو انڈیل دیتا هے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وه قطره ٹپك پڑتا هے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نه کرسکیں۔ جب بنده اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیاده شامل کردیتا هے که ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایك ترازو پر آجاتے هیں۔ یه وه لمحه هے جب که دعا ،محض لغت کا ایك لفظ نهیں هوتا، بلکه وه ایك شخصیت کے پھٹنے کی آواز هوتی هے۔ اُس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی هے۔ بندگی اور خدائی دونوں ایك دوسرے سے راضی هوجاتے هیں۔ قادرِ مطلق ،عاجز ِ مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا هے۔
اِس واقعے پر غور کیجیے تو اس میں دونوں قسم کی دعا کی مثال نظر آئے گی۔ مذکوره بچے نے جب پهلی بار اپنے باپ سے یه کها که مجھے ایك بائیسکل خرید دیجیے تو اُس نے گویا که صرف دعا کی، لیکن دوسری بار جب اُس نے روکر یه کها که آپ هی تو همارے باپ هیں، آپ سے بائیسکل کے لیے نه کهیں تو اور کس سے کهیں۔ جب بچے کی زبان سے یه دوسرے الفاظ نکلے تو وه گویا که ایك سپر دعا تھی۔ پهلے قسم کے الفاظ سے باپ پر کوئی اثر نهیں پڑا تھا، لیکن دوسرے قسم کے الفاظ نے باپ کو پگھلا دیا۔ اب وه اتنا متاثر هوا که وه فوراً بائیسکل خریدنے کے لیے تیار هوگیا۔
اِس مثال سے عام قسم کی دعا اور اسمِ اعظم کی دعا کا فرق سمجھا جاسکتا هے۔عام قسم کی دعا، محض دعائیه الفاظ کو زبان سے دهرادینے کا نام هے، لیکن اسمِ اعظم کے ساتھ کی گئی دعا گویا که سپر دعا هے۔ ایسی دعا خود خدا کو هلا دیتی هے، جیسا که مظلوم کی دعا کے بارے میں حدیث میں آیا هے که :دعوۃ المظلوم تحمل علی الغمام، وتفتح لها أبواب السماء، یقول الرّب عزّوجلّ:وعزّتی، لأنصرنّك ولوبعد حین (مسند احمد، جلد 2، صفحه 305 )۔
دعا اور سپر دعا کا فرق، الفاظ میں فرق کا نام نهیں، بلکه دعا کرنے والے کی داخلی اسپرٹ میں فرق کا نام هے۔ یه دراصل دعا کرنے والے کی اپنی حالتِ داخلی پر منحصر هے که اُس کی زبان سے نکلنے والی دعا، سپر دعا بنے گی یا وه صرف عام دعا بن کر ره جائے گی۔