اسماءِ حسنیٰ اور انسان
اگر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں کمیونکیشن کی تاریخ بتائی گئی هو۔ اِس کتاب میں نامه بر کبوتر، ٹیلی گراف، ٹیلی فون اور موبائل جیسے نام هوں۔ اس کتاب کو ایک شخص پڑھے، خواه وه کتاب کی زبان سے بخوبی واقف هو، لیکن اگر نامه بر کبوتر، ٹیلی گراف، ٹیلی فون اور موبائل جیسی چیزوں کو اُس نے دیکھا نه هوتو وه اِن چیزوں کی حقیقت کے بارے میں کچھ نه جان سکے گا۔ اِس قسم کی کوئی کتاب ایک واقف کار انسان کے لیے ایک معلوماتی کتاب هے، لیکن ایک ناواقف انسان کے لیے وه صرف ایک معمّا بن کر ره جائے گی۔
ایسا هی کچھ معامله اسماءِ حسنیٰ کا هے۔ خدا کے اسماءِ حسنیٰ، قرآن اور حدیث میں نام به نام بتادیے گیے هیں، لیکن اِن ناموںکو قرآن اور حدیث میں پڑھ لینا کافی نهیں۔ قرآن اور حدیث میں بیان هونے کے باوجود یه تمام نام کسی انسان کے لیے ایک نامعلوم چیز کی دریافت(discovery) کی حیثیت رکھتے هیں۔ کوئی آدمی اِن ناموں کی حقیقت کو صرف اُس وقت جان سکتاهے، جب که اِس سے پهلے وه ذاتی دریافت کی سطح پر اُن کا علم حاصل کرچکا هو۔ ذاتی دریافت کے بغیر یه نام کسی آدمی کے لیے صرف رسمی نام هوں گے، نه که معرفتِ خداوندی کا خزانه۔