لقد أُوتیتَ سُؤلك یا موسیٰ
غالباً 1962 کی بات هے۔ مجھے اعظم گڑھ کے ایك قصبه (اَن جان شهید) کے ایك اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں مسلم حضرات شریك تھے۔ مجھے پیشگی طورپر معلوم نه تھا که مجھ کو اِس اجتماع میں خطاب کرنا هے۔ کچھ لوگوں نے اچانك مجھے اسٹیج پر لے جاکر کھڑا کردیا۔ میرے لیے یه ایك مجبورانه خطاب کا معامله تھا۔ یه غالباً پهلا موقع تھا جب که مجھے خطاب کے معاملے میں کامل عجز کا تجربه هوا۔ اس سے پهلے میں نے بار بار اجتماعات میں خطاب کیا تھا، مگر یه تمام خطابات تحریری مقالے کی صورت میں تھے۔ مجھے پیشگی طورپر پروگرام کا علم هوتا تھا اور میں مقاله لکھ کر اس کو وهاں پڑھ دیتا تھا۔
مگر اِس بار ایسی صورت پیش آئی که مجھے لازمی طورپر بولنا بھی تھا اور کسی پیشگی تیاری کے بغیر زبانی طورپر خطاب کرناتھا۔ اُس وقت اچانك میرے اندر وه ذهنی بھونچال کی کیفیت پیدا هوئی جس کو نفسیاتی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ(brain storming) کها جاتا هے۔ اُس وقت میرے لیے کسی آزادانه انتخاب کا موقع نه تھا۔
میں نے خدا کو یا د کیا اور دیوانگی کے عالم میں اچانك بولنا شروع کردیا۔ حاضرین کے سامنے مائك پر بولتے هوئے میں نے کها که —قرآن میں پیغمبروں کے قصے بتائے گئے هیں، لیکن یه تاریخی کهانی کے طورپر نهیں، بلکه وه همارے حال کے لیے ایك زنده سبق کی حیثیت رکھتے هیں۔ اِسی میں سے ایك واقعه یه هے که خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا که وه مصر کے جابر بادشاه کے دربار میں جائیں اور وهاں اُس کے سامنے توحید کی دعوت پیش کریں۔
حضرت موسیٰ نے کها که : وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي (26:13)۔ یعنی خدایا، میرا سینه تنگ هو رها هے اور میری زبان چلتی نهیں ۔ پھر انھوں نے قادرِ مطلق خدا کی توفیق سے یه دعا کی که: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي،يَفْقَهُوا قَوْلِي (20:25-28)یعنی اے میرے رب، میرے لیے میرا سینه کھول دے اور میرے لیے میرے معاملے کو آسان کردے۔ اور تو میرے زبان کی گره کو کھول دے تاکه لوگ میری بات کو سمجھیں ۔
میں نے کها که حضرت موسیٰ نے جب اس طرح خدائے سمیع و بصیر کو پکارا تو ان کی دعا سیدھے عرشِ الٰهی تك پهنچ گئی اور وهاں سے آواز آئی : قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى(20:36)۔ یعنی اے موسی، تم نے جو سوال کیا، وه تم کو دے دیاگیا ۔
اس کے بعد میں نے دیوانگی کے عالم میں کها که یه واقعه کوئی ماضی کی سرگزشت نهیں، یه واقعه آج بھی اسی طرح زنده هے، جس طرح خدائے حی و قیوم زنده موجود هے۔ آج بھی اگر کوئی خدا کا بنده خدا کو پکارے اور کهے که خدایا، میرا سینه تنگ هورها هے اور میری زبان چلتی نهیں تو آج بھی اُس کی یه آواز خدائے سمیع و بصیر تك پهنچے گی اور وهاں سے آواز آئے گی که اے میرے بندے، تم نے جو سوال کیا وه تم کو دے دیا گیا۔ میں یه کهه رها تھا اور میری آنکھ سے آنسو نه تھمنے والے مینھ کی طرح برس رهے تھے۔ اس کے بعد میں نے بے اختیارانه انداز میں بولنا شروع کیا اور مسلسل بولتا رها۔
یه واقعه میرے لیے اِس معاملے میں ایك بریك تھرو(breakthorugh) کی مانند تھا۔ اس کے بعد میں نے تقریری مقاله لکھنا چھوڑ دیا اور برجسته انداز میں بولنا شروع کردیا۔ اس کے بعد میں نے انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باهر سیکڑوں اجتماعات میں شرکت کی اور لمبی لمبی تقریریں کیں۔ یه بلاشبه اَن جان شهید کے اجتماع والی دعا کا کرشمه تھا۔
میری سمجھ کے مطابق، یه دعا اسم اعظم کے ساتھ کی هوئی دعا تھی۔ اس سے پهلے میں گویا ایك بے زبان انسان تھا۔ میرے مرحوم عزیز مولانا اقبال احمد سهیل (وفات1955) مجھ کو بچپن میں ’’مرزاپھویا‘‘ کها کرتے تھے۔ مذکوره واقعے کے بعد میں جس طرح اجتماعات میں بولنے لگا، اُس کی کوئی بھی توجیهه دعا کے سوا نهیں کی جاسکتی۔