ایك واقعه
24 اکتوبر 2006 کا واقعه هے۔ یه عید کا دن تھا۔ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نئی دهلی کی ایك مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے گیا۔وهاں میں مسجد کے ایك گوشے میں تنها بیٹھا هوا تھا۔ میں مسلسل رورها تھا اور بے قراری کے عالَم میں دل کی زبان سے دعا کررها تھا۔ میری اِس حالت کو مولانا محمد ذکوان ندوی نے دیکھا۔ بعد کو انھوں نے مجھ سے پوچھا که آپ کاکیا معامله تھا۔ اُن کے پوچھنے پر میں نے بتایا که مجھے وه حدیث یاد آئی، جس میں عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے والے اهلِ ایمان کا ذِکر هے۔ وه حدیث اِس طرح هے:
’’… فإذا کان یومُ عیدِهم، یعنی یومَ فِطرهم، باهیٰ بهم ملائکتَه، فقال:ملائکتی، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَه۔ قالوا:ربّنا، جزائُه أن یُوفّیٰ أجره۔قال:ملائکتی، عبیدی وإمائی قضوا فریضتی علیهم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتی وجَلالِی وکَرمی وعُلوّی وارتفاعِ مکانی لأجیبنّهُم۔ فیقول:ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال:فیرجعون مغفوراً لهم۔(رواه البیهقي في شعب الإیمان،حديث نمبر3444)۔
ترجمه: جب اُن کی عید کا دن آتا هے، یعنی عید فطر کا دن، تو الله تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اُن پر فخر کرتا هے۔ وه کهتا هے: اے میرے فرشتو، اُس عامل کا اجر کیا هے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کهتے هیںکه اے همارے رب، اُس کی جزا یه هے که اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدله دے دیا جائے۔خدا کهتاهے که اے میرے فرشتو، میرے بندو ں اور میری بندیوں نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر تھا، پھر وه نکلے هیں دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے هوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ، میرے کرم ، میرے عُلوِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ضرور اُن کی پکار کو سنوں گا۔ پھر خدا کهتا هے که: تم لوگ واپس جاؤ، میں نے تم کو بخش دیا اور میں نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں بدل دیا۔ پس وه لوگ اِس طرح لوٹتے هیں که اُن کی مغفرت هوچکی هوتی هے۔
آج کے دن کی نسبت سے یه حدیث مجھے یاد آئی۔ یه سوچ کر میرا دل بے قرار هوگیا که آج کے دن خدا لوگوں کو بڑے بڑے انعام دے رهاهے، لیکن یه انعام عمل کرنے والوں کے لیے هے اور میرے پاس کوئی عمل نهیں۔
پھر مجھ کو سرسید احمد خاں (وفات1898 ) کا ایك واقعه یاد آیا۔ وه اپنے محمڈن کالج (موجوده علی گڑھ یونیورسٹی) کے چندے کے لیے ایك مسلم نواب کے یهاں گیے۔ نواب صاحب سرسید کے بعض خیالات پر ان سے بهت غصه تھے۔ انھو ں نے سرسید سے ملنے سے انکار کردیا، مگر سرسید مایوس نهیں هوئے۔ ان کو معلوم تھا که شام کو نواب صاحب اپنی گھوڑا گاڑی پر سیر کے لیے نکلتے هیں۔ اُس وقت ان کی کوٹھی کے سامنے بھکاری لوگ بیٹھ جاتے هیں۔نواب صاحب هر ایك کو کچھ نه کچھ دیتے هوئے آگے چلے جاتے هیں۔
سرسید شام کے وقت وهاں پهنچے اور بھکاریوں کی صف میں اِس طرح بیٹھ گیے که اپنی ٹوپی کو کاسهٔ گدائی کی طرح اپنے سامنے رکھ لیا۔ نواب صاحب حسب معمول اپنی گھوڑا گاڑی پر نکلے۔ انھوں نے دیکھا که سرسید بھکاریوں کی صف میں بیٹھے هوئے هیں۔ یه دیکھ کر نو اب صاحب کو تعجب هوا۔ انھوں نے کها که سید تم یهاں کهاں۔ سرسید نے جواب دیا که— نواب صاحب، اگر آپ مجھے چنده نهیں دے سکتے تو بھیك تو دے سکتے هیں۔اس بات کا نواب صاحب پر بهت اثر پڑا۔ وه اپنی گاڑی سے اتر پڑے اور سرسید کو لے کر اپنی کوٹھی کے اندر گیے۔ ان کو عزت کے ساتھ بٹھایا اور ان کو کالج کے لیے کافی چنده دیا۔
میں نے اس واقعے کو لے کر کها که خدایا، اگر میں عمل کی بنیاد پر کچھ پانے کا مستحق نهیں تو بھیك کے طورپر تو مجھے اپنا انعام عطا کردے، کیوں که تو نے قرآن میں جس طرح عامل کو عطیه کا مستحق قرار دیا هے، اِسی طرح تو نے سائل کو بھی عطیه کا مستحق بتایا هے۔ اگر تو انسان سے یه چاهتا هے که وه عامل کو دینے کے ساتھ سائل کو بھی دے تو یقینا میں امید کرسکتا هوں که تو خود بھی میرے ساتھ اِسی طرح کا معامله فرمائے گا۔
میں سمجھتا هوں که یه بھی اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی ایك مثال هے، جس کی توفیق مجھے خدا کی خصوصی رحمت کے تحت حاصل هوئی۔ جهاں تك میرا تجربه هے، اسمِ اعظم کے ساتھ دعا نه تو کسی یاد کیے هوئے الفاظ کو دهرانے کا نام هے اور نه خود انسان پیشگی طورپر سوچ کر اِس قسم کی دعا کرسکتا هے۔ اِس قسم کی دعا براهِ راست خدا کی توفیق سے هوتی هے اور وه اچانك هی انسان کے سینے سے اُبل پڑتی هے، جیسے کوئی جواله مُکھی پهاڑ اچانك پھٹ پڑے، حالاں که موسمیات کے ماهرین نے اس کی پیشین گوئی نه کی هو۔