دعا کے ذریعے شرکت
قرآن کی سوره التوبه میں کچھ اهلِ ایمان کا ذکر هے۔ غزوهٔ تبوك (8 هجری) کے موقع پر چوں که نفیرِ عام تھی، اس لیے وه اُس میں جانا چاهتے تھے۔ مگر اُن کے پاس اتنی رقم نهیں تھی که وه اِس طویل سفر کے لیے ضروری سامان کی تیاری کرسکیں۔ وه رسول الله صلی الله علیه وسلم کے پاس مدد کے لیے آئے، مگر آپ نے معذرت فرمائی۔ اِس واقعے کا اشاره قرآن کی ایك آیت میں اِس طرح کیاگیا هے:اور نه اُن لوگوں پر کوئی الزام هے که جب وه تمھارے پاس آئے که تم اُن کو سواری دو، تم نے کها که میرے پاس کوئی چیز نهیں که میں تم کو اُس پر سوار کروں، تو وه اِس حال میں واپس هوئے که اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اِس غم میں که اُنھیں کچھ میسر نهیں جو وه خرچ کریں(9:92)۔
یه افراد غزوهٔ تبوك میں شریك نه هوسکے، مگر ایك حدیثِ رسول کے مطابق، خدا کے نزدیك وه اُس میں شریك مانے گیے۔ غزوهٔ تبوك سے واپس هوتے هوئے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اُن کے متعلق اپنے اصحاب سے فرمایا: إنّ بالمدینۃ أقواماً، ماسِرتُم مسیراً، ولا أنفقتُم من نفقۃٍ، ولا قطعتم من وادٍ، إلاّ وهُم معکم فیه(سنن ابو داؤد، حديث نمبر 2508)۔ یعنی مدینه میں کچھ ایسے افراد هیںکه تم جب کسی راستے پر چلے، یا جب بھی تم نے کچھ مال خرچ کیا، یا تم کسی وادی سے گزرے تو وه اُس میں تمھارے ساتھ تھے ۔
یه بڑا عجیب انعام تھا جو مدینه کے اُن افراد کو ملا، یعنی عمل کے بغیر عمل کے انعام میں شرکت۔ میں غور کرتا هوں تو مجھے محسوس هوتاهے که یه انوکھا انعام اُن کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی بنا پر ملا۔
مجھے ایسا محسوس هوتاهے، جیسے که وه اپنی تنهائیوں میں رو رو کر یه دعا کررهے هوں که—خدایا، تو نے دوسروں کو جو انعام عادل هونے کی حیثیت سے دیا، وه انعام مجھ کو رحیم هونے کی حیثیت سے دے دے۔ تونے دوسروں کے لیے جو چیز اُن کے عمل کی بنا پر مقدر کی، وه چیز میرے لیے میری دعا کے نتیجے میں مقدر کردے۔ تو نے جو کچھ دوسروں کو استحقاق کی بنا پر عطا فرمایا، وه چیز مجھ کو سوال کرنے والے کی حیثیت سے دے دے۔ دوسروں کو جو چیز تو نے استطاعت کی بنا پر دی، وه مجھ کو عجز کی بنا پر دے دے۔ تونے دوسروں کوجو چیز مومنِ قوی هونے کی حیثیت سے دی ، وه مجھ کو مومنِ ضعیف هونے کی حیثیت سے دے دے، کیوں که تیرے رسول نے هم کو یه خبر دی هے که: ضعیف مومن کے لیے بھی خیر هے: وفي کلٍّ خیر (صحیح مسلم، حديث نمبر4823 )۔