بارش شروع هوگئی
سلطان عبد الرحمن الناصر کے زمانے میں ایك بار اسپین میں قحط پڑا۔ بهت سخت حالات پیدا هوگئے۔ سلطان نے اپنا ایك خاص آدمی قاضی منذر کے پاس بھیجا اور درخواست کی که آپ استسقاء کی نماز پڑھائیں اور دعا کریں که الله تعالیٰ اپنی رحمت سے بارش برسائے۔ قاضی منذر نے سلطان کے قاصد سے پوچھا که سلطان نے میرے پاس دعا کاپیغام بھیجا هے مگر وه خود کیا کررهے هیں۔
قاصد نے کها: آج سے زیاده هم نے کبھی ان کو الله سے ڈرنے والا نهیں پایا۔ ان کا حال یه هے که وه حیران و پریشان هیں۔ تنهائی میں پڑے هوئے هیں۔ میں نے دیکھا که وه مٹی کے فرش پر سجدے میں گرے هوئے تھے۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وه اپنے گناهوں کا اعتراف کررهے تھے اور الله سے کهه رهے تھے: خدایا، میری پیشانی تیرے هاتھ میں هے۔ کیا تو میرے گناهوں کی وجه سے لوگوں کو عذاب دے گا، حالاں که تو سب سے زیاده رحم کرنے والا هے (هذه ناصیتی بیدك، أتراك تعذِّب بیَ الرّعیّۃ، وأنت أرحم الراحمین)۔
یه سن کر قاضی منذر کے چهرے پر اطمینان ظاهر هوگیا۔ انھوں نے قاصد سے کها: اپنے ساتھ بارش لے کر واپس جاؤ، اب ضرور بارش هوگی۔ کیوں که زمین کا حاکم جب تضرع کرتاهے توآسمان کا حاکم ضرور رحم فرماتا هے (إذا خشع جبّار الأرض، رحم جبّار السماء) چناںچه ایساهی هوا۔ قاصد واپس هو کر گھر پهنچاتھاکه بارش شروع هوگئی (الکامل فی التاریخ، جلد 8، صفحه 675 )۔
زمین پر خشك سالی اِس لیے آتی هے، تاکه آنکھوں کی خشك سالی ختم هو۔ آسمان پر بادل اِس لیے گرجتے هیں، تاکه لوگوں کے دل خدا کے خوف سے دهلیں۔ گرمی کی شدت اِس لیے هوتی هے، تاکه لوگ جهنم کی آگ کو یاد کرکے تڑپ اٹھیں۔
اِس طرح کے واقعات کا نهایت گهرا تعلق، اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم کے معاملے سے هے۔ یهی وه واقعات هیں جو انسان کے اندر ربّانی کیفیات کی پرورش کرتے هیں، اور جس سینے کے اندر ربّانی کیفیات کا یه چشمه جاری هوجائے، وهی وه انسان هے جس کو اسماءِ حسنیٰ کی معرفت هوتی هے اور اُسی کو یه توفیق ملتی هے که وه اسمِ اعظم کے ساتھ خداوندِ عالم کو پکارے اور اُس کی پکار ضرور سنی جائے۔