خدا کا فزیکل ماڈل
خدا کا عقیده انسان کے اندر همیشه سے پایا گیا هے۔ اینتھراپالوجی (anthropology) کے تحت جو مطالعه کیا گیا هے، اس سے معلوم هوتا هے که هر انسانی سماج کسی نه کسی اعتبار سے خدا کو مانتا رها هے۔ خدا کا عقیده فلسفیوں کے یهاں بھی پایا گیا هے اور اهلِ مذاهب کے یهاں بھی۔ لیکن فلسفه اور مذهب دونوں میں خدا کا عقیده ایک بے صفات خدا (attributeless God) کی حیثیت سے پایا جاتا رها هے، یعنی کاسمک ریز (cosmic rays) یا زمین کی قوتِ کشش (gravity) کی مانند۔
لیکن مجرد خدا (abstract God) انسان کی ذهنی گرفت میں نهیں آتا۔ انسان خدا کا ایک ایسا ماڈل بنانا چاهتا هے، جس میں وه خدا کو صفات کی اصطلاحوں (in term of attributes) میں قابلِ فهم بنا سکے۔ انسان کی یهی ضرورت هے جس کے غیر فطری اظهار کے نتیجے میں بت وجود میں آئے۔ انسان کی یه کمزوری هے که وه الفاظ یا ناموں کے ذریعے کسی حقیقت کو اپنے ذهن کی گرفت میں لاتا هے۔ اس طرح مختلف بُت، انسان کو مختلف الفاظ یا نام دے دیتے هیں جن کے ذریعے وه بزعم ِ خود ایک ماڈل کے روپ میں خدا کا ادراک کرتا هے۔ انسان نے اپنی اِسی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے غلط طورپر بت بنائے اور ان کی پرستش شروع کردی۔
لیکن بتوں کی شکل میں خدا کا ماڈل بنانا، ایک بے بنیاد قیاس هے، کیوں که خداکو بتوں کا روپ دینا ایک لامحدود هستی کو محدود کا روپ دینا هے،یه خدا کا ایک بگڑا هوا فارم هے۔ یه خدا کے نام پر خدا کی نفی کے هم معنی هے۔
بت چوں که مٹی یا پتھر کے هوتے هیں اور انسان خود ان بتوں کو بناتا هے۔ خداکو بتوں کی شکل دینے کے باوجود هر انسان یه سمجھتا هے که یه صرف مٹی اور پتھر هیں، اُن کے اندر کوئی ذاتی طاقت نهیں۔ اس لیے بتوں کی سطح پر خدا پرستی عملاً صرف ایک بے روح رسم بن جاتی هے۔ انسان کے لیے ممکن نهیں هوتا که وه بتوں سے قلبی ربط قائم کرسکے۔اس لیے فطری طور پر ایسا هوتا هے که کچھ رسمی اعمال، خدا پرستی کی جگه لے لیتے هیں۔ آدمی خدا پرستی کے نام پر کچھ بے روح رسموں، مثلاً پھول چڑھانے یا نذر ونیاز دینے کو خدا پرستی کے لیے کافی سمجھ لیتا هے۔
مزید یه که آدمی خدا کے نام پر بتوں سے قریب هوتا هے، لیکن بتوں کی طرف سے جوابی طورپر اس کو کوئی انسپریشن (inspiration) نهیں ملتا، انسان داخلی طورپر اپنے لیے کوئی روحانی غذا نهیں پاتا، اِس لیے بتوں کا کلچر محض ایک بے روح تعلق بن کر ره جاتا هے۔ بتوں سے قربت کے باوجود انسان کو اتنی بھی روحانی کیفیت نهیں ملتی جتنا که ایک باپ یا ماں کو اپنے بچے سے مل کرحاصل هوتی هے۔
انسان ایک باروح شخصیت هے۔ اپنی اِس فطرت کے اعتبار سے اس کو ایک با روح خدا درکار هے۔ پتھر کی مورتی سے اس قسم کا روحانی تعلق قائم هونا ممکن نهیں۔ روحانی تعلق دو طرفه تعلق کا نام هے۔ همارے اندر کیفیات هوں، لیکن دوسری طرف سے اس کا جواب نه ملے تو اِس قسم کا یک طرفه تعلق صرف اوپری یاغیرفطری تعلق هوگا، وه انسان کی زندگی میں کوئی حقیقی درجه حاصل نهیں کرسکتا۔
یه واقعه ایک اور شدید تر خرابی پیدا کرتاهے، وه یه که بت کلچر آخر میں جھوٹ کلچر یا ظاهرداری کلچر بن کر ره جاتا هے۔ بتوں کے اندر خدائی اوصاف ثابت کرنے کے لیے فرضی کهانیاں بنائی جاتی هیں اور ان کو خوب شهرت دی جاتی هے، تاکه بتوں کا جو فائده حقیقی طورپر نهیں ملا، اُن کے بارے میں لوگوں کو یه فرضی تاثر دیا جائے که وه حاصل هوئے، یا وه حاصل هوسکتے هیں۔
بت پرستی کا یهی ظاهره (phenomenon) قبر پرستی کی دنیا میں بھی نظر آتا هے۔ قبر پرست لوگ صاحبِ قبر کے نام پر انتهائی بے بنیاد قسم کی فرضی کهانیاں وضع کرتے هیں۔ وه جھوٹے خوابوں کا طلسم بناتے هیں اور پھر ان فرضی کهانیوں اور فرضی خوابوں کو اس طرح پھیلاتے هیں جیسے که وه سچ مچ واقعه هوں۔ اس طرح اَصنام کلچر اور درگاه کلچر انسان کو دیوالیه پن کی حد تک اعلیٰ اخلاق سے دور کردیتا هے۔
انسان عین اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے ایک جذباتی وجود هے۔ جذبات کا تفرق (diversification)ممکن نهیں۔ انسان فطری طورپر اپنے جذبات کا کوئی ایک مرکز چاهتا هے۔ جذبات کا کئی مرکز هوناایک غیر فطری بات هے جو عملاً ممکن نهیں۔ بت پرستی اِس معاملے میں بھی انسانی نفسیات سے ٹکرا جاتی هے۔ فطری طورپرانسان کسی ایک هی چیز سے جذباتی تعلق قائم کرسکتا هے۔ بت پرستی کے مذهب میں چوں که یه مراکز متعدد هوجاتے هیں، اِس لیے اس کا عملی نتیجه یه هوتا هے که حقیقی خدا پرستی سرے سے ختم هوجاتی هے۔ خدا پرستی کے نام پر کچھ بے روح مظاهر باقی رهتے هیں، اِس سے زیاده اور کچھ نهیں۔