اسماءِ حسنیٰ: خدا کا تصوراتی ماڈل
اسماءِ حسنیٰ کا معامله اِس سے بالکل مختلف هے۔ اسماءِ حسنی کے ذریعے آدمی اِس قابل هوجاتا هے که وه حقیقی معنوں میں خدا کا تصور اپنے ذهن میں لائے، وه حقیقی طورپر خدا سے مربوط هوسکے۔
بت پرستی کے مذهب میں انسان، خدا کے فزیکل ماڈل(physical model) بناتا هے۔ اِس قسم کے ماڈل بنانا ایک سنگین انحراف هے، وه خدا پرستانه کلچر کو ایک بے روح رسم بنا کر رکھ دیتا هے۔ حقیقت یه هے که اَصنام کلچر یا درگاه کلچر خدا کی خدائی کا کم تر اندازه(underestimation) هے۔ بت پرستی کے کلچر میں یا قبر پرستی کے کلچر میں اعلیٰ خدائی اخلاقیات کبھی پرورش نهیں پاسکتے۔
اسماءِ حسنیٰ گویا که اِسی غلطی کی تصحیح هیں۔ اسماءِ حسنیٰکے ذریعے انسان کو خداکا تصوراتی ماڈل (conceptual model) مل جاتا هے۔ اور بلاشبه خدا کا تصوراتی ماڈل هی صحیح ماڈل هے۔ اسماءِ حسنیٰ کی شکل میں آدمی اُن صحیح الفاظ کو پالیتا هے جن کے ذریعے وه خدا سے تصوراتی ربط قائم کرسکے۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے خدا سے جو تعلق قائم هوتا هے، وه ایک زنده اور معلوم تعلق هوتا هے۔
مثلاً انسان فطری طورپر یه چاهتا هے که خدا ایک هو اور وه زنده اور قائم خدا هو۔ اب جب وه کهتا هے که: الله لا إلٰه إلاّ هو الحیُّ القیّوم (3:2) تو وه عین اپنی فطری مانگ کے مطابق، فوراً خدا کا ایک حقیقی ماڈل پالیتاهے۔ اِس کے بعد فطری طورپر ایسا هوتا هے که انسان اور خدا کے درمیان ایک زنده تعلق قائم هوجاتا هے۔ اِس اعتبار سے اسماءِ حسنیٰ، خدا اور انسان کے درمیان تصوراتی ربط (contact at conceptual level) کا زنده اور حقیقی ذریعه هیں۔ وه انسان کی فطری تلاش کا ایک بھر پورجواب (complete response) هیں۔
اسماءِ حسنیٰ، انسان کے لیے خدا کا مستند تعارف هیں۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے انسان، خدا کی صفاتی شخصیت کا یقینی تصور اپنے ذهن میں لاسکتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ خدا کا وه تصوراتی ماڈل هیں جو کسی انسانی قیاس پر قائم نهیں هیں، بلکه وه خود خدا کے الهامی علم پر قائم هیں۔ وه اعتقادی بے یقینی میں بھٹکے هوئے انسان کو یقین کا سرچشمه عطا کرتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے انسان اُس صحیح فریم ورک کو پالیتا هے جس کی روشنی میں وه خدا کو اپنے لیے پوری طرح قابلِ فهم (understandable) بناسکے۔