چند مثالیں
یه ایک حقیقت هے که انسان پیدائشی طورپر ایک متلاشی حیوان (truth-seeking animal) هے۔ اِس چھپی هوئی فطرت کے زیر اثر آدمی کے اندر یه جذبه جاگتا هے که کوئی برتر هستی هو جو اُس کو هدایت کی روشنی عطا فرمائے۔ اُس وقت وه پکار اٹھتا هے که اے خدائے هادی، تو مجھ کو اپنی رحمتِ خاص سے هدایت عطا فرما۔
موجود دنیا میں انسان بار بار ایسی صورتِ حال سے دوچار هوتا هے، جهاں وه اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا هے۔ اُس وقت اُس کی فطرت میں چھپا هوا جذبه چاهتاهے که وه ایک بالا تر هستی کو پکارے۔ یهاں وه اسماءِ حسنیٰ میں اِس بالا تر هستی کا ایک متعلق خدائی نام پالیتا هے اور اُس کے حوالے سے وه یه کهه اٹھتا هے که اے خدا، تو هی میرا ناصر هے، تو هر اعتبار سے میری مدد فرما۔
انسان مجرد طورپر نهیں سوچ سکتا۔ اپنی ذهنی ساخت کے اعتبار سے انسان کو همیشه الفاظ درکار هوتے هیں، جن کے ذریعے وه کسی تصور کو اپنے ذهن میں لاسکے۔ خدا کے اسماءِ حسنی کی نوعیت یهی هے۔ یه اسماءِ حسنیٰ یه بتانے کے لیے نهیں هیں که مطلق طورپر خداکے نام کیا کیا هیں، وه صرف اُن اسماء کو بتاتے هیں جو انسان کی نسبت سے هم کو درکار هیں۔ گویا که یه اسماءِ حسنیٰ ضرورتِ انسانی کے اعتبار سے بتائے گیے هیں، نه که خود ذاتِ خداوندی کی حقیقتِ اعلیٰ کے اعتبار سے۔
اسماءِ حسنیٰ سے مراد صفاتِ حسنیٰ هیں، مگر اسماءِ حسنیٰ خود خدا کی مطلق نسبت سے خدا کا تعارف نهیں هیں، وه انسان کی نسبت سے خدا کا تعارف هیں۔ اسماءِ حسنیٰ در اصل، ذکر اور دعا کے لیے انسان کو پوائنٹ آف ریفرنس دیتے هیں۔ مثلاً ایک شخص کو رزق درکار هے تو وه خدا سے کهه سکے که— اے رزّاق، تو مجھے رزق دے دے۔ ایک شخص اپنے کو عاجز محسوس کرتا هے تو وه کهه سکے که— اے قادرِحقیقی، تو میرے عجز کی تلافی فرما۔