دومثالیں
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے دونوں قسم کی دعاؤں کی مثال یهاں نقل کی جاتی هے۔ ایك شخص نے قرآنی دعاؤں کی ایك کتاب بازار سے خریدی۔ اُس میں کچھ دعائیں چھپی هوئی تھیں۔ اُس نے اِن دعاؤں کو یاد کرلیا اور نمازوں میں اُن کو دهرانے لگا۔ مثلاً : ربّنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ، و فی الآخرۃ حسنۃ، وقنا عذاب النار۔ یعنی اے همارے رب، تو هم کو دنیا میں ’حسنه ‘ دے اور تو هم کو آخرت میں ’حسنه‘ دے، اور تو هم کو آگ کے عذاب سے بچا(2:201)۔ دعا کا یه طریقه روایتی دعا کی ایك مثال هے۔
اب سپر دعا کی ایك مثال لیجیے۔ اب سے ساڑھے تین هزار سال پهلے مصر میں ایك مشرك بادشاه کی حکومت تھی، جس کا لقب فرعون تھا۔ اِس زمانے میں حضرت موسیٰ کا ظهور هوا، جنھوں نے مصر میں دعوتِ توحید دی۔ فرعون خود تو حضرت موسیٰ کا مخالف بن گیا، لیکن اس کی بیوی آسیه بنتِ مُزاحم، حضرت موسیٰ کی دعوتِ توحید سے متاثر هوئی اور وه حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئی۔
قدیم زمانے کے اعتبار سے یه کوئی ساده بات نه تھی۔ قدیم زمانه ’النّاسُ علیٰ دینِ مُلوکهم‘ کا زمانه تھا۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ ریلیجن کو ماننا، سیاسی وفاداری کی علامت تھا۔ اسٹیٹ ریلیجن کے خلاف کسی اورریلیجن کو ماننے والا، اسٹیٹ کا باغی سمجھا جاتا تھا اور اُس کو وه سزا دی جاتی تھی جو ریاست سے بغاوت کے لیے مقرر هے۔آج هم مذهبی آزادی کے ماحول میں جیتے هیں، لیکن قدیم زمانے میں هزاروں سال تك دنیا میں مذهبی جبر (religious persecution) کا نظام رائج تھا۔
یهی وه پس منظر تھا جس میں فرعون نے آسیه کے لیے قتل کا حکم دے دیا۔ قرآن میں بتایا گیا هے که اُس وقت آسیه کی زبان سے یه دعا نکلی:ربِّ ابْنِ لي عندك بیتاً فی الجنۃ(66:11)یعنی اے میرے رب، اپنے پاس میرے لیے جنت میں ایك گھر بنا دے ۔
آسیه کی اِس دعا کو اُس کے پس منظر کی روشنی میں دیکھئے تو گویا که آسیه نے یه کها— اے میرے رب، میں نے تیرے لیے دنیا میں بادشاه کے محل کو چھوڑ دیا، اب تو آخرت کی ابدی دنیا میں میرے لیے اپنے پڑوس میں ایك محل بنادے:
I sacrifice my seat in the palace of worldly king, O Lord, give me a better seat in your neighbourhood in the world hereafter.
آسیه بنت مزاحم کی اِس دعا کے لیے بعض علما نے درست طورپر کها : ما أحسن هٰذا الکلام، یعنی کتنی اچھی هے یه دعا (صفوۃُ التّفاسیر، جلد 3، صفحه 412)۔
یه دعا بلا شبه، ایك تخلیقی دعا تھی۔ آسیه بنت مزاحم کے سامنے دو چیزوں کے درمیان انتخاب تھا— محل کی زندگی کی خاطر فرعون کے مشرکانه مذهب پر قائم رهنا، یا خدا کے مُوحِّدانه مذهب کی خاطر سفّاکانه قتل کا سامنا کرنا۔ آسیه کی معرفت اُس وقت اتنی زیاده گهری هوچکی تھی که اُس کو یه فیصله کرتے هوئے ایك لمحے کی دیر نهیں لگی که مجھے حق کی خاطر، دنیا کے وقتی محل کو چھوڑ دینا چاهیے اور خدا کی ابدی جنت کو اپنے لیے منتخب کرلینا چاهیے، خواه اِس انتخاب کی قیمت میں مجھے قتل کردیا جائے یا سُولی پر چڑھا دیا جائے۔
اِس پورے پس منظر کی روشنی میں دیکھیے تو آسیه بنت مزاحم کی دعا بلاشبه ایك سپر دعا تھی اور وه فوراً هی قبول هوگئی۔ روایات میں آیا هے که موت سے پهلے فرشتوں نے آسیه کو جنت میں اُس کے محل کا مشاهده کرایا۔ چناں چه آسیه نے اِس حال میں جان دی که اُس کے چهرے پر اطمینان کی خوشی صاف دکھائی دے رهی تھی۔
آسیه بنت مزاحم کی یه دعاجو قرآن میں نقل کی گئی، وه محض ایك فرد کی دعا نهیں هے بلکه وه ایك نمائنده دعا هے۔ حقیقت یه هے که هر عورت اور مرد کو یهی دعا کرنا هے۔ هر عورت اور مردکو اِسی مرحلے سے گزرنا هے۔ هر عورت اور مرد کو قربانی کی سطح پر جاکر یه کهنا هے که — خدایا، میں نے تیرے دین کی خاطر دنیا کی چیزوں کو چھوڑا، تاکه تو اگلے مرحلهٔ حیات میں اپنا زیاده بهتر انعام مجھے عطا فرمائے۔ یهی وه عورت اور مرد هیں جن کی بابت یومُ الحساب (Day of Judgement) کے موقع پر یه اعلان کیا جائے گا که انھوں نے خدا کی خاطر دنیا کی عارضی جنت کو چھوڑ دیا تھا، اب اُن کو آخرت کی زیاده اعلیٰ جنت میں داخل کردو، تاکه یهاں وه ابدی طور پر خوشیوں اور راحتوں کی زندگی گزاریں اور کبھی اُکتاهٹ کے احساس کا شکار نه هوں۔