ایك وضاحت
مذکوره حدیث میں ایك صحابی کی دعا کا ذکر هے۔ رسو ل الله صلی الله علیه وسلم نے مذکوره دعا کے متعلق فرمایا که یه دعا اسمِ اعظم کی دعا تھی۔ چوں که یه دعا صحابی نے عربی زبان میں کی تھی، اِس لیے لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یه سمجھ لیـتے هیں که اسمِ اعظم والی دعا وهی هے جو عربی زبان میں کی گئی هو، غیرعربی زبان کی دعا اسم ِ اعظم کی دعا نهیں۔
مگر یه سوچ درست نهیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، صحابی نے جو دعا کی، وه ان کی اپنی مادری زبان میں تھی، نه که ساده طورپر عربی زبان میں۔ دعا کو عربی زبان کے ساتھ مخصوص کرنا، ایك غیرفطری نظریه هے۔ دعا دل کے جذبات کا نام هے، نه که کسی زبان کے الفاظ کا نام۔ قرآن میں بتایاگیا هے که هرپیغمبر اپنی قوم کی زبان میں بھیجا گیا (ابراهيم، 14:4)، یهی معامله دعا کا بھی هے۔ جس طرح دعوت مخاطب قوم کی زبان میں هوتی هے، اِسی طرح دعا، دعا کرنے والے کی اپنی مادری زبان میں هوتی هے۔
ایسا ماننا بهت ضروری هے۔ اس لیے که اگر دعا کو عربی زبان کے ساتھ مخصوص کردیا جائے، یا عربی زبان کی دعا کو افضل دعا بتایا جائے تو یه دعا کی اصل روح کو ختم کرنے کے هم معنیٰ هوگا۔ دعا کسی قسم کی تکرارِ الفاظ کا نام نهیں، دعا تڑپتے هوئے دل کی پکار کا نام هے، اور ایسی دعا همیشه آدمی کی اپنی مادری زبان هی میں ظهور میں آتی هے۔