زمین میں فساد نہیں
سورہ الاعراف میں انسان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی زمین میں خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق رہے، وہ اس سے انحراف نہ کرے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں:فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (7:85)۔ یعنی، پس ناپ اور تول پوری کرو۔ اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں۔ اور فساد نہ ڈالوزمین میں اس کی اصلاح کے بعد۔
خدانے اس زمین کو ایک اصلاح یافتہ زمین کے طورپر پیدا کیا ہے ۔ یہاں ہر چیز اپنی معیاری صورت میں ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے سوا جو دنیا ہے وہاں عدل اور پوری ادائیگی کا اصول قائم ہے۔ یہ گو یا ایک اصلاحی نظام ہے جو خدا کی زمین پر قانون فطرت کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ انسان کو بھی اپنی زندگی میں اسی اصلاحی اصول کو اختیار کرنا ہے۔ اس کے خلاف چلنا گویازمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ بنائو میں بگاڑ کو داخل کرنا ہے۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ زمین میں ہر چیز کو نہایت متناسب انداز (right proportion) میں رکھا گیا ہے۔ سورج کی روشنی ، بارش اور ہوا ہر چیز میں ایک خاص تنا سب قائم ہے۔ زمین کی سطح پر سبزہ اور جنگلات سوچے سمجھے اندازہ کے مطابق اگا ئے گئے ہیں۔ انسان کے لیے بقا اور ترقی کاراز یہ ہے کہ وہ فطرت کے اس اصلاحی نقشہ کو برقرار رکھے۔
زمین کے اندر فطرت کاجو نظام ہے وہ گویا ایک ماڈل ہے۔ انسان کو بھی اسی ماڈل پر اپنی زندگی کی تشکیل کرنی ہے۔ انسان اگر ایسا کرے کہ وہ فطرت کے اس ماڈل کو اپنی زندگی میں اختیا رنہ کرے، اسی کے ساتھ وہ مزید یہ سرکشی کرے کہ وہ فطرت کے نظام کو بدل دے، مثلاً ہوا میں گیسوں کے فطری تناسب کو بگاڑ دے تو گویا وہ دو ہراجرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوکررہ جائیں گے، وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔
اسلام پرہیز گاری کا نام ہے۔اور روزہ اسی پرہیزگارانہ زندگی کا تربیتی کورس۔