انتظار کی پالیسی
سورہ یوسف میں پیغمبریوسف کاواقعہ بیان ہوا ہے۔حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ ان کے اوپر بہت سے سخت حالات پیش آئے۔ مگر وہ تقویٰ اور صبر پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ خدا نے ان کو سر فرازی عطا فرمائی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہے:إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (12:90)۔ یعنی، جو شخص ڈرے اور صبر کرے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایاگیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرےلوگوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیامیں ہر شام کے بعدصبح آتی ہے ۔ ایسا ہونا لازمی ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اوپرجب اندھیری رات آئے تو انسان بے صبری اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہو، بلکہ خدا پر بھروسہ کرکے انتظار کی پالیسی اختیار کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو جلد ہی وہ دیکھے گاکہ اس کے اوپر سورج طلوع ہو ااورہر طرف اجالاپھیل گیا۔تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کے مقرر کیے ہوئے نظام پر راضی رہے ۔ اور صبر کامطلب یہ ہے کہ وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے ۔ اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں جس پر چل کرآدمی اپنی منزل پرپہنچ سکتا ہو۔
قانون فطرت کے مطابق، اس دنیا میں کوئی ناکامی ابدی ناکامی نہیں۔ ہر ناکام "حال" کے ساتھ ایک کامیاب" مستقبل" جڑا ہوا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بے صبری کر کے اس نظام کو نہ بگاڑے ۔ وہ صبر کی پالیسی اختیار کرکے قدرت کے اگلے فیصلہ کا انتظار کرتا رہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کے لیے یہی پالیسی مفید بھی ہے اور یہی پالیسی ممکن بھی۔
فطرت کے اسی اصول کو ایک مشہور مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے— انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ۔یہ ایک عالمی تجربہ ہے جو اس مقولہ کی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس معاملہ میں یہی مذہبی تعلیم بھی ہے اور یہی فطرت کاتقاضا بھی ۔