استحکام کاراز
سورہ الرعد میں اس قانون فطرت کو بتایا گیا ہے جس کے تحت اس دنیا میں کسی کو قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفع بخشی(giving spirit) کا قانون ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی، اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدا رکے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اورا سی طرح کاجھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جس کولوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے وہ زمین میں ٹھہرجاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت میں فطرت کی دو مثالوں کے ذریعہ ایک حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اور قومی زندگی میں ایک کے مقابلہ میں دوسرے کے لیے قیام اور استحکام کا راز کیا ہے۔ وہ راز صرف ایک ہے اور وہ نفع بخشی ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جو گروہ دینے والا گروہ (giver group) ہوا س کو دوسروں کے مقابلہ میں جمائواور ترقی حاصل ہو اور جو گروہ لینے والا گروہ(taker group) بن جائے وہ دوسروں کے مقابلہ میں مغلوب ہو کررہ جائے۔
اس قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو محرومی کے وقت مطالبہ کی مہم سراسر بے معنی ہے ۔ کیوںکہ اس دنیا میں کسی کو مطالبہ سے کچھ نہیں مل سکتا ۔ اس دنیا میں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا تو وہ صرف دینے کی قیمت پر ملے گا۔ اس معاملہ میں موجودہ دنیا کا قانون ایک لفظ میں یہ ہے— جتنا دینا اتنا پانا۔
﴿روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں، روزہ اخلاقی ڈسپلن کی سالانہ تربیت ہے﴾