قرآن فہمی کی کلید

قرآن فہمی کی کلید (key)کیا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق اس کا جواب تلاش کریں۔جیسے امریکا کے سابق کمیونسٹ ہاورڈ فاسٹ (Howard Fast)نے کہا تھا کہ میں خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق کمیونسٹ بنا۔ مگر اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود قرآن سے اس کا جواب معلوم کیا جائے۔ اس اعتبار سے اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن میں اس کا جواب متعین طور پر صرف ایک ملے گا، اور وہ ہے تقویٰ۔ یعنی قرآن کے مطابق، تقویٰ فہم قرآن کی کلید ہے۔

اس سلسلے میں قرآن کی تین آیتیں یہ ہیں: ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2:2)۔ یعنی یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میں ہدایت ہےاہل تقویٰ کے لیے۔ دوسری آیت یہ ہے: وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو علم دے گا۔ایک اور آیت یہ ہے: إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا (8:29)۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تم کو فرقان عطا کرے گا۔

قرآن کی ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے معانی کا ادراک کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت پائی جاتی ہو۔تقویٰ کا مادہ وقَی يَقِيِ ہے۔راغب اصفہانی نے اس کا لغوی مطلب اس طرح لکھا ہے:جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف (المفردات ، راغب الاصفہانی،صفحہ 881) ۔یعنی آدمی جس چیز سے ڈرے،اس سے اپنابچاؤ کرنا۔

تقویٰ آدمی کو محتاط (cautious) انسان بناتا ہے۔ جو آدمی محتاط ذہن رکھتا ہو، وہ کسی معاملے میں غیر ذمہ دارانہ رائے قائم نہیں کرسکتا، وہ رائے بنانے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا۔ اس کی یہ محتاط روش اس کو بھٹکنے سے بچالے گی۔ اس کی روش اس بات کی ضامن بن جائے گی کہ وہ غیرذمہ دارانہ رائے قائم کرنے سے بچے۔ وہ جو رائے بھی قائم کرے، ہر پہلو پر بے لاگ انداز میں غور کرکے قائم کرے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom