برائی اور بھلائی
قرآن میں زندگی کا ایک قانون بتایا گیا ہے ۔ اس قانون کا تعلق ہر فرد سے ہے، مرد سے بھی اور عورت سے بھی ۔ عام انسان سے بھی اور خاص انسان سے بھی ۔ا س سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ( 11:114) یعنی، بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو۔ یہ یاددہانی ہے یاددہانی حاصل کرنے والوں کے لیے۔
انسان پتھرنہیں ہے ۔ انسان سے مختلف قسم کی غلطیاں پیش آتی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد یا ایک عورت سے ایک واقعہ سرزد ہوگیا۔ بعد کو انہیں احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس غلطی کی تلافی کس طرح کی جائے ۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں غلطی کی تلافی کے اسی اصول کو بتایا گیا ہے۔
آدمی جب کوئی غلطی کرتاہے تو اس کا سب سے پہلا اثریہ ہوتا ہے کہ اس کے دل کے اندر اچھے اور برے کے بارے میں حسّاسیت(sensitivity) کم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر آدمی بار بار وہی برائی کرتا رہے تو اس کی حساسیت پوری طرح ختم ہوجائے گی ۔ جب کہ یہی حساسیت برائی کے خلاف سب سے بڑا چِک (check)ہے۔ ایسی حالت میں حساسیت کاختم ہونا انسان کا گویا حیوان بن جانا ہے۔ اس مسئلہ کاحل صرف یہ ہے کہ آدمی برائی کرنے کے بعد بھلائی کرے۔ وہ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرے۔ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ جو آدمی ایسا کرے وہ اپنے د ل کو دوبارہ پاک کرلے گا۔ اس کے دل کی حساسیت دوبارہ اس کی طرف لوٹ آئے گی۔
برائی کا دوسرااثر وہ ہے جس کا تعلق سماج سے ہے۔ سماج کے ایک فرد کا برائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے پر سکون پانی میں پتھر پھینکنا ۔ چنانچہ ایک فرد کا برائی کرنا پورے سماج کومتاثر کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ا یسی حالت میں اپنی برائی کی تلافی کرنا گویا پورے سماج کو بگاڑ سے بچانا ہے۔ یہ فرد کے اوپر ایک سماجی فرض ہے کہ وہ اپنی برائی کے انجام سے سماج کو بچائے۔