قرآن کا مطالعہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جدید معیار کے مطابق، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ اُن کا کمرہ انگریزی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ان کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ وہ زیادہ تر انگریزی ناولیں پڑھتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ سنجیدہ موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے سیکڑوں ناولیں اور کتابیں پڑھی ہیں۔ اِس مطالعے کے دوران آپ نے بہت سی بامعنی باتیں پڑھی ہوں گی۔ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بتائیے۔ وہ بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ میں نے ایسی بہت سی باتیں پڑھی ہیں، مگر وہ کوئی ایک بامعنی بات نہ بتا سکے۔ میں نے کئی مثالیں دے کر بتایا کہ بامعنی بات سے میری مراد کیا ہے، مگر اصرار کے باوجود وہ ایسی کوئی ایک بات بھی نہ بتا سکے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگ کتابوں کو تفریح (entertainment) کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہ کتابوں کو اِس لیے نہیں پڑھتے کہ اس سے حکمت (wisdom) اور نصیحت کی چیزیں دریافت کریں اور مطالعے کو اپنے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں۔ اور جب مطالعے کا مقصد تفریح ہو، تو وہ حکمت کے حصول کا ذریعہ کیسے بن جائے گا۔یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ موجودہ دور کے مسلمان قرآن کوصرف برکت اور فضیلت کےلیے پڑھتے ہیں۔ اس لیےانھیں قرآن سے حکمت اور نصیحت کا کوئی آئٹم حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں احکام کی آیتیں بہت کم ملیں گی۔ بعض علما کے مطابق، قرآن کی کل آیات 6236 میں سے احکام کی آیتیں صرف200 ہیں۔ اس کے مقابلے میں ان آیتوں کی تعداد زیادہ ہے جن میں حکمت یا نصیحت کی باتیں ہیں۔کیوں کہ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر تفکر اور تدبر کی صلاحیت کو زندہ کیا جائےتاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ارتقا یافتہ شخصیت کی صورت میں تعمیر کرے۔ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے۔