سی پی ایس کا مقصد
ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے بعض قومی اور ملی مسائل کے بارے میں ایسے بیانات دیے ہیں جن کی وجہ سے آپ ملت سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ یہ چیز آپ کے مشن کے لیے مفید نہیں۔ آپ کو ملت کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اپنی قوم کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔میں نے کہا کہ آپ پر غالباً یہ بات واضح نہیں کہ میرا نشانہ کیا ہے۔ آپ دوسروں کے نشانے کو جانتے ہیںاور ان کو میرے اوپر چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔ میرے نشانے اور دوسرے لوگوں کے نشانے میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسروں کا نشانہ عملی نتیجہ ہوتا ہے اور ہمارا نشانہ ابلاغ ہے۔دوسروں کی کامیابی اس میں ہے کہ قوم اُن کا ساتھ دے، تاکہ وہ اپنے مطلوب نتیجے کو حاصل کرسکیں۔ اِس نشانے کی بنا پر وہ اِس کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جو قوم کے مزاج کے خلاف ہو اور قوم ان سے کٹ جائے۔
اس کے برعکس، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم خالصتاً دعوت الی اللہ کے لیے اٹھے ہیں۔ اِس مقصد کی بنا پر ہمارا نشانہ صرف ابلاغ (یس،36:17)ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک ایز اٹ از پہنچا دینا۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ناصح اور امین کی حیثیت سے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اِس کے بعد یہ دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم ملت میں دو قسم کے لوگ ہیں— ایک وہ جو مسلم مفاد کے نام پر ہنگامے کی سیاست چلاتے ہیں۔ اِس گروہ میں کچھ لوگ سوچ کی سطح پر ایسے ہیں اور کچھ لوگ عملی سطح پر۔ اُن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملت آج دشمنوں سے اور سازش کرنے والوں سے گھری ہوئی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اُن لوگوں سے مقابلہ کیا جائے۔ میں بلاشبہ اِس طبقے سے کٹا ہوا ہوں۔ لیکن اِسی کے ساتھ ملت میں دوسرا طبقہ بھی ہے جو سنجیدہ ہے، جو دوسروں کے خلاف منفی ہنگامے کے بجائے خود اپنی اصلاح کو اہمیت دیتا ہے، جو جہاد کے نام پر تشدد کے بجائے پُر امن دعوت الی اللہ میں یقین رکھتا ہے۔ ملت کا یہ دوسرا طبقہ ساری دنیا میں میرے ساتھ ہے، اور اِس طبقے کے تعاون سے آج ہمارا مشن ہر جگہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پھر میں نے ایک عرب شاعر کا یہ شعر پڑھا:
فـإنْ أ ك فـي شرارِكُم قليلاً فـإنّـي فـي خـيـاركُـم كـثـيرُ