شکر سے اضافہ
سورہ ابراہیم میں فطرت کاایک قانون بتایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق، اس دنیا میں شکر کرنے سے اضافہ ہوتا ہے۔ یہ قانون قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (14:7)۔ یعنی، اور جب تمہارے رب نے تم کو آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میراعذاب بڑاسخت ہے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ وہ معلوم اسباب کے تحت پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے ، فرد کے لیے فرد کی حیثیت سے اور گروہ کے لیے گروہ کی حیثیت سے۔
شکر دراصل اعتراف (acknowledgement) کانام ہے۔ انسان کی نسبت سے جس چیز کو اعتراف کہا جاتا ہے اسی کو خدا کی نسبت سے شکر کہا گیا ہے۔ شکر یہ ہے کہ خدا نے آدمی کو جو کچھ دیا ہے، دل کی گہرائیوں کے ساتھ وہ اس کااعتراف کرے۔
یہ شکر یا اعتراف کوئی سادہ چیز نہیں۔ اس کا رشتہ نہایت گہرائی کے ساتھ آدمی کی نفسیات سے جڑاہوا ہے۔ شکر کرنے والے آدمی کے اندر تو اضع ،حقیقت پسندی، اعتراف حق، سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس پیداہوتا ہے۔ یہ احساسات اس کے کردار میں نمایاں ہوتے ہیں جو اس کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس، معاملہ ناشکری کا ہے۔ ناشکری سے آدمی کے اندر سرکشی، حقیقت سے اعراض، بے اعترافی ، غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری جیسی پست صفات پیداہوتی ہیں ۔ اور جس آدمی کے اندر اس قسم کی پست صفات پائی جائیں اس کی ترقی یقینی طور پر رک جائے گی ۔ حتیٰ کہ ممکن ہے کہ وہ ملے ہوئے کو بھی کھو دے۔