ملاقات کا صحیح طریقہ
قرآن میں باہمی ملاقات کے آداب بتاتے ہوئے ایک تعلیم یہ دی گئی ہے کہ ملاقات کے لیے پیشگی اجازت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ مذکورہ قرآنی آیت یہ ہے:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (24:27)۔ یعنی، اے ایمان والو، تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت حاصل نہ کرلو اور گھروالوں کو سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تا کہ تم یاد رکھو ۔
قرآن کی اس آیت میں ملاقات سے پہلے اپائنٹمنٹ(appointment) لینے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی ایک شخص جب دوسرے شخص سے ملنا چاہے تو اس کے یہاں جانے سے پہلے پیشگی طور پر وہ باقاعدہ اس سے اجازت حاصل کرے اور پھر اس کے یہاں ملنے کے لیے جائے۔ آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے یہاں ملاقات کے لیے اچانک پہنچ جائے۔ اس سے سماجی زندگی میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حتی کہ خود ملاقات کامقصد بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر بالفرض کوئی شخص پیشگی اجازت نامہ کے بغیر کسی کے ہاں ملنے کے لیے پہنچ جائے تو اس کے اندر یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ اگر متعلقہ شخص اپنے کسی عذر کی بنا پر ملاقات نہ کر سکے یا ملاقات کے لیے بہت کم وقت دے تو فریقِ اول کو اس پر کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اگلی ملاقات کے لیے دوبارہ وقت لے کر بلا شکایت واپس چلاجائے ۔ یہ انسانیت کااعلیٰ طریقہ ہے اورا علیٰ طریقہ کے بغیر کبھی انسانیت کی اعلیٰ ترقی نہیں ہو سکتی ۔
جس طرح ہر چیز کے آداب ہیں اسی طرح ملاقات کے بھی آداب ہیں۔ ملاقات کے آداب میں سے یہ ہے کہ متعلقہ شخص سے اس کی پیشگی اجازت لی جائے۔ گفتگو کے وقت سنا نے کے ساتھ سننے کا بھی مزاج ہو۔ غیر ضروری سوال یا بے فائدہ تفصیل سے بچاجائے۔ تنقید اور تعریف سے بلند ہو کر بات کو سنا جائے۔ اپنی رعایت کے ساتھ دوسرے کی رعایت کا بھی پورا لحاظ رکھاجائے۔ گفتگو آہستہ انداز میں کی جائے۔ گفتگو کے وقت زور زور سے بولنا آداب کلام کے خلاف ہے۔