حالات یکساں نہیں رہتے
سورہ آل عمران میں ایک صورت حال پر تبصرہ ہے۔پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کو بدر کے مقابلہ میں اپنے مخالفین پرفتح حاصل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد احد میں انہیں اپنے مخالفین سے شکست ہو گئی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے:إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی، اگر تم کوکوئی زخم پہنچاہے تو دشمن کو بھی ویسا ہی زخم پہنچ چکا ہے۔ اور ہم ان ایا م کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں قو موں کے بارے میں ایک تاریخی قانون کو بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی قوم ہمیشہ غالب رہے یا ہمیشہ فتح حاصل کرتی رہے ۔ اس بنا پر حالات ہمیشہ کسی ایک قوم کے موافق نہیں ہوتے ۔ حالات کافیصلہ کبھی ایک گروہ کے حق میں ہوتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں ۔ ایسی حالت میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے فیصلہ کو قبول کریں۔ وہ شکایت اور احتجاج کے بجائے ازسر نواپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسابقت کے اصول پر بنا یا گیا ہے ۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان مقابلہ جاری رہتا ہے۔ اس مقابلہ میں کبھی ایک گروہ کو جیت حاصل ہوتی ہے اور کبھی دوسرے گروہ کو۔ مقابلہ آرائی کایہ ماحول قوموں کو مسلسل طور پر بیداررکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے ترقی کاعمل برابر جاری رہتا ہے۔
ایسی حالت میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہارنے والے اور جیتنے والے دونوں اپنی ہار اور جیت کو وقتی سمجھیں ۔ نہ ہارنے والا پست ہمت ہو اور نہ جیتنے والا فخر وناز کی نفسیات میں مبتلا ہو جائے۔ اس معاملہ میں معتدل رویہ پرقائم رہنا گو یا قدرت کے فیصلہ کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، معتدل رویہ سے ہٹنا گو یا قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہونا ہے۔ مگر جو لوگ اس معاملہ میں قدرت کے فیصلہ پرراضی نہ ہوں وہ خود اپنا ہی نقصان کریں گے ، نہ کہ کسی اور کا۔
یہ معاملہ پوری طرح فطرت کے قانون کامعاملہ ہے۔ وہ کسی کے لیے اور کسی کی وجہ سے بدلنے والانہیں۔ ایسی حالت میں کوئی فریق اگر اس کو قبول نہ کرے تو اس کا یہ عدم قبول ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے مجھے پھول کے ساتھ کانٹا مطلوب نہیں یا کوئی شخص اس بات پر احتجاجی مہم چلائے کہ دنیا کے نظام کو اس طرح بدل جانا چاہیے کہ یہاں صرف میرے لیے موافق موسم ہو، اور جو موسم میرے خلاف ہو وہ کبھی زمین پر نہ آئے۔
عالمی نظام کے بارے میں اس قسم کی شکایت واحتجاج جتنی بے معنی ہے اتنا ہی بے معنی وہ شکایت واحتجاج بھی ہے جو سیاسی تبدیلی یاقوموں کے عروج وزوال پر کی جائے۔