اسٹریس مینجمنٹ
Stress Management
زندگی میں بار بار مسائل اورمصائب آتے ہیں۔ ایساہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ اس سے کس طرح کامیابی کے ساتھ نپٹاجائے ۔ اس کاجواب قرآن کی سورہ البقرہ میں ملتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (2:155-156)۔ یعنی،اور ہم ضرورتم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوںکی کمی سے ۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دوجن کاحال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں— ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
مسائل اور مصائب کے وقت کوئی شخص ذہنی تنائو کاشکار کیوںہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جس کو نہ ہونا چاہیے تھا۔ آدمی اگر یہ سمجھ لے کہ جو کچھ پیش آیاہے وہ خودفطرت کے قانون کے تحت پیش آیاہے تو وہ کبھی ذہنی تنائو کاشکارنہ ہو۔ مثلاً اگر آندھی اور بارش آئے تو وہ بھی انسان کے لیے مسئلہ پیدا کرتی ہے۔مگر آندھی اور بارش کے وقت آدمی ذہنی تنائو کا شکارنہیں ہوتا ۔ وہ اس کوفطرت کے قانون کے تحت ہونے والا ایک واقعہ سمجھتا ہے اورمعتدل انداز میں اس کا سامنا کرتاہے۔
یہی معاملہ زندگی کے مسائل اور مصائب کا بھی ہے۔ یہ چیزیں خالق کے تخلیقی منصوبہ کے تحت پیش آتی ہیں۔ وہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت(blessing in disguise) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی اگر پیش آنے والے مصائب کواس حیثیت سے لے تو وہ کبھی ذہنی تنائو کا شکار نہ ہو۔
مصائب یا مسائل کاسامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ،صبر کا طریقہ، اور دوسرا بے صبری کا طریقہ ۔ بے صبری کا طریقہ، دوسرے لفظوںمیں، منفی ردعمل(negative reaction) کا طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، صبرکا طریقہ مثبت ردعمل(positive response) کا طریقہ ہے۔ ذہنی تنائو ہمیشہ بے صبری کانتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں صبرکا طریقہ آدمی کوذہنی تنائو کا شکار ہونے سے بچالیتا ہے۔
اس دنیا میں ہر آدمی قانونِ خداوندی، بالفاظ دیگر قانونِ فطرت کے تابع ہے۔ وہ اپنے آغاز میں بھی اسی قانون کے ماتحت ہے اور اپنے آخر میں بھی اسی قانون کے ماتحت ۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت جب بھی کسی مسئلہ سے دو چار ہو تو وہ معتدل انداز میں اس کا سامنا کرے۔ وہ اس کو اپنے حق میں خیر سمجھ کر اس کوقبول کرے۔
اس آیت میں مصیبتوںکامقصد ابتلاء(وَلَنَبْلُوَنَّكُم)بتایا گیا ہے ۔ ابتلا ء کے معنی امتحان یا آزمائش ہے۔ انسانی زندگی میں اس قسم کے امتحان کامقصد یہ ہے کہ اس کو حوادث کے درمیان تربیت دے کر زیادہ بہتر انسان بنایا جائے۔ حوادث کسی آدمی کے لیے ترقی کازینہ ہیں۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کاذہن بیدار ہوتا ہے ۔ حوادث کے ذریعہ آدمی کے اندر پختگی (maturity)آتی ہے ۔ حوادث آدمی کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہیں۔ حوادث آدمی کے لیے زندگی کے سفر میں مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ حوادث کے بغیر آدمی نامکمل ہے۔ یہ حوادث ہی ہیں جوآدمی کی شخصیت کومکمل شخصیت بناتے ہیں۔
اس سےمعلوم ہواکہ حوادث کاصحیح مقابلہ یہ نہیں ہے کہ اپنے ذہنی عمل کودبانے (suppress)کی کوشش کی جائے۔ بہت سے لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ سگریٹ یاشراب کے ذریعہ اس کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مخصوص ورزشوں کے ذریعہ اپنے اندرذہنی عمل کو معطل کردینا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی زندگی سے فرار (escape)کا کوئی طریقہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ میڈیٹیشن(meditation) کے ذریعہ اپنے ذہن کو ایک ایسی حالت میں لے جاتے ہیں جس کو ذہنی تخدیر(intellectual anaesthesia) کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تمام طریقے فطرت کے خلاف ہیں اورجو چیز فطرت کے خلاف ہووہ کبھی انسان کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی کا حل ذہنی عمل کودبانا نہیں ہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔