انسانی علم کی محدودیت
سورہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگوں کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے ایک فطری انسانی حقیقت کااعلان کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کامتعلقہ بیان یہ ہے:وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔ یعنی، اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ۔ اور تم کو صرف علم قلیل دیا گیا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی محدود یت(limitations) کی بنا پر علم کلی تک نہیں پہنچ سکتا ۔ علم کلی بطور واقعہ موجو دہے۔ مگر انسان کی ذاتی محدود یت کی بنا پر وہاں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لے ۔ وہ جزئی علم کی بنیاد پر کلی علم کے بارے میں استنباط کرے۔ اگر انسان نے یہ اصرار کیا کہ ہر چیز کو براہ راست میرے مشاہدہ میں آنا چاہیے تو وہ صرف کنفیوژن کاشکار ہو کررہ جائے گا ۔ کیوںکہ کلی حقیقت کا بطور مشاہدہ علم میں آنا اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔
یہ ایک اہم تعلیم ہے۔ یہی واحد چیز ہے جو آدمی کو کنفیوژن سے بچانے والی ہے۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ ہر چیزان کے براہ راست مشاہدہ میں آئے ، اسی وقت وہ اس کو مانیں گے تو ایسے لوگ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہیں گے ۔ اس دنیا میں یقین کے درجہ تک پہنچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسا کرے ۔ یعنی وہ جزئی علم تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ اعتراف کرلے کہ اس کے بعد براہ راست علم کی حد ختم ہو گئی اور بالواسطہ علم کی حد آگئی ۔ یہی واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو یقین کادرجہ عطا کر سکتا ہے۔
یہ عین وہی اصول ہے جس کو موجودہ سائنس میں اب ایک حقیقت کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اب اہل علم کے درمیان یہ ایک مسلمہ اصول بن چکا ہے کہ سائنس ہم کو سچائی کاصرف ایک حصہ عطا کرتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.