کائنات معرفت کاخزانہ
قرآن میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے، وہ تدبر اور تفکر ہے۔ قرآن کے مطابق، ہماری گر دوپیش کی دنیا حقائق کاخزانہ ہے۔ اس میں غور وفکر کے ذریعہ آدمی زندگی کی حقیقتوں کو دریافت کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی کچھ آیتیں یہ ہیں:إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (3:190-191)۔ یعنی، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں ااور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصدنہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کوآگ کے عذاب سے بچا۔
قرآن کی ان آیتوں میں جوبات کہی گئی ہے اس کو سائنس آف ٹروتھ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کے سائنسی مطالعہ کامقصد صرف ٹیکنکل ترقی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا ایک اور مقصد ہے، اور وہ ہے خالق کی تخلیقات میں خالق کو دریافت کرنا۔ تخلیقات کا گہرا مطالعہ کرکے زندگی کے راز کو معلوم کرنا۔ مادی کائنات کی تحقیق کرکے یہ جاننا کہ اس کے نقشہ کے مطابق، انسانی ترقی کاقانون کیا ہے۔
قرآن ( الملک، 67:3) بتاتا ہے کہ کائنات میں کوئی خلل (flaw)نہیں ۔ اس طرح کائنات کامطالعہ انسان کے لیے اس میں مدد گار ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل بھی کامیابی کے ساتھ انجام دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے اپنی زندگی میں جو نقشہ مطلوب ہے وہ وہی ہے جو بقیہ کائنات میں بالفعل قائم ہے۔ چنانچہ آدمی جب کائنات کامطالعہ کرتا ہے تو وہ اس میں ایک طرف خالق کی تجلیات کو پالیتا ہے اور دوسری طرف اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کن خطوط پر کرنا چاہیے۔